Powered By Blogger

Monday 23 December 2013

اس معاشرے میں عدالتی اصلاحات اور شہری حقوق کی بات کرنا ایک گالی ہی تو ہے ہم غلطی پرتھے

پاکستان میں عدالتی اصلاحات کی منزل ابھی بہت دور ہے۔کیونکہ فرسودہ نظام کی جڑیں گہرائی تک موجود ہیں اور فرسودہ نظام کے محافظ انتہائی طاقتور ہیں
ایک کورٹ محرر ہی کو لے لیں بظاہر یہ معمولی سا شخص ہے  گزشتہ دنوں ایک مجسٹریٹ صاحب کی عدالت میں ایک کورٹ محرر اس طرح پیش ہوا کہ پان  چبارہا تھا یونیفارم تو وہ پہنتے ہی نہیں    سب سے بڑھ کر کورٹ میں ایک جعلی رپورٹ لگائی تھی مجسٹریٹ نے پوچھ گچھ کی تو ہنسنے لگا اور آئیں بایئں شایئں کرنے لگا اسی دوران موبائل فون بج اٹھا جس کے بعد جوڈیشل مجسٹریٹ نے فوری کاروائی کی اور اس کو کورٹ ٹائم ختم ہونے تک ہتھکڑی لگا کرکمرہ عدالت میں ہی  قید کردیا اس حد تک تو یہ معمولی واقعہ ہے  بہت ہی معمولی واقعہ لیکن اصل واقعہ یہ ہوا کہ کچھ ہی دیر بعد ایک سپریم کورٹ کے نامور وکیل صاحب آئے چیمبر میں کارڈ بھیجا جج صاحب نے بلالیا  وکیل صاحب نے کہا کہ  ہایئکورٹ کے بہت سے کام چھوڑ کر آیا ہوں مجسٹریٹ صاحب کو حیرت ہوئی کہ آخر کیا معاملہ ہے وکیل صاحب نے کہا کہ یہ کورٹ محرر اپنا بچہ ہے اور انتہائی شریف ہے  اس کو معاف کردیں  مجسٹریٹ صاحب نے کہا بڑی حیرت ہے آپ اتنی نامور شخصیت اور سفارش  کس کی کررہے ہیں خیر وہ صاحب چلے گئے کچھ دیر بعد تو تانتا ہی بندھ گیا ایک آرہا ہے تو دوسرا جارہا ہے  مختصر یہ کہ جج نے کسی کی نہیں مانی اور کورٹ ٹائم تک اس کو قید رکھا ایک وکیل صاحب نے تو فلسفہ بیان کیا کہ یونیفارم پہننے سے کیا ہوتا ہے  آخر کونسا پہاڑ گر پڑے گا
سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس معاشرے میں عدالتی اصلاحات کی بات کررہے ہیں جس معاشرے میں ایک معمولی کورٹ محرر کو بچانے کیلئے سپریم کورٹ کے وکیل دوڑے چلے آتے ہیں جس کو بچانے کیلئے لوگ نئے نئے فلسفے گھڑ لیتے ہیں  ایک معمولی کورٹ محرر کو بچانے کیلئے جن عدالتوں میں لوگ لائن بنا کر کھڑے ہوجایئں اس معاشرے میں عدالتی اصلاحات کی بات کرنا بھی ایک گالی ہے
کل مجھے محسوس ہوا کہ شاید میں اور میرے دوست شدید غلطی پر ہیں  وہ  چند ججز  اور گنتی کے چند وکلاء جو ہماری حمایت کرتے ہیں ہم سب شدید غلطی پر ہیں  پاکستان میں فرسودہ نظام ہی رہنا چاہیئے فرسودہ نظام ہی اچھا ہے  اس معاشرے میں عدالتی اصلاحات اور شہری حقوق کی بات کرنا ایک گالی ہی تو ہے
ہم غلطی پر تھے
صفی الدین اعوان