Powered By Blogger

Wednesday 18 December 2013

فرسودہ نظام کے چہرے پر کالک ملنے کا وقت آگیا :: تحریر صفی الدین اعوان

پاکستان کی ڈسٹرکٹ کورٹس میں ایک نئی تبدیلی کی لہر آرہی ہے ۔ فرسودہ نظام سے بیزار نوجوان ججز دلیری اور بہادری سے نظام کے منہ پرکورٹ اسٹاف کی باتوں میں آئے بغیر "کالک مل " رہے ہیں ان  نوجوان ججز کی تعداد بڑھ رہی جن کے  دل میں انصاف کے نام پر ہونے والے مذاق کے خلاف بغاوت جنم لے رہی ہے۔گزشتہ دنوں دو اہم واقعات میں ایک نوجوان جج نے دو اہم فیصلے کیئے وہ فیصلے اگرچہ  یہ فیصلےمعمولی محسوس ہوتے ہیں لیکن جس بہادری سے کورٹ اسٹاف کی باتوں میں آئے بغیر  فرسودہ نظام کے منہ پر کالک پھیری گئی ہے وہ غیر معمولی ہے گزشتہ دنوں کراچی کے ڈسٹرکٹ وسطی میں ایک مجسٹریٹ کے پاس دوسری عدالت سے دو کیس ٹرانسفر ہوکر آئے ایک میں فوڈ انسپکٹر کا دعوی تھا کہ  اس نے ایک ہوٹل سے دو سیمپل لیئے ایک سیمپل گھی کا اور دوسرا "نمک" کا گھی کا لیبارٹری ٹیسٹ ٹھیک آیا ثابت ہوا کہ ہوٹل والا معیاری گھی استعمال کررہا تھا  جب کے نمک  مقرر شدہ اسٹینڈرڈ کے مطابق نہ تھا لیکن فوڈ انسپکٹر نے یہ الزام نہیں لگایا کہ کھانا بدمزہ تھا فوڈ انسپکٹر کی شکایت پر ایک مجسٹریٹ پیٹی بھائی "انتظامی" آرڈر پاس کرچکا تھا اور ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کرچکا تھا جس کے بعد ہوٹل کا مالک ایک سال سے تاریخ پر تاریخ بھگت رہا تھا   اندازہ لگایئے کہ شاید پاکستان میں خلفاء راشدین کا دور لوٹ آیا ہمارے فوڈ انسپکٹر اتنے ایماندار ہوگئے کہ نمک کی ملاوٹ پر مقدمہ بنادیا سسٹم سے ہی بیزار نوجوان جج نے چالان پڑھا تو سارا معاملہ ایک منٹ میں سمجھ گیا  آپ لوگ بھی سمجھدار ہیں  کہ   ملاوٹ کیلئے نمک ہی کیوں ؟ جو صرف 5 روپے کلو بازار میں بکتا ہے اصل مقصد یہ تھا کہ  فوڈ انسپکٹر نے ہوٹل کے مالک کو دکھادیا کہ یہ دیکھو  میری طاقت میں چاہوں تو صرف نمک کے غیر معیاری ہونے پر  تمہیں کورٹ کچہری کا راستہ دکھا سکتا ہوں کیا اب فوڈ انسپکٹر 15 بندے لیکر ہوٹل میں پہنچ کر کھانا کھائے تو ہوٹل کا مالک پیسے مانگنے کی حماقت کرے گا  مختصر یہ کہ نوجوان جج نے  نظام کے منہ پر کالک ملنے کیلئے دراز سے  کالک نکالی فرسودہ نظام کے منہ پر خوب  کالک مل کر کورٹ محرر سے جعلی رپورٹیں لگوائے بغیر کہ گواہ نہیں مل رہے گواہوں کو پابند کردیا ہے گواہان کے قابل ضمانت  وارنٹ اور ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیئے  لیکن وہ کورٹ میں پیش نہیں ہورہے یہ سارا فراڈ کھیلے بغیر اس بے گناہ شخص کو فوری طور پر باعزت بری کردیا  بلاشبہ  اگرچہ یہ ایک معمولی کامیابی نظر آتی ہے لیکن درحقیقت آنے والے وقت میں نوجوان ججز مزید بہادری کا مظاہرہ کریں گے دوسرا کیس ایک بوڑھے دودھ فروش کا تھا فوڈ انسپکٹر کا فرمانا یہ تھا کہ دودھ میں کوئی ملاوٹ نہیں لیکن چکنائی کی شرح کم ہے یہ بدنصیب بھی اس فرسودہ نظام کے تحت تاریخیں بھگت رہا تھا  اس کو بھی پہلی فرصت میں فرسودہ نظام کے منہ پر" کالک مل کر" باعزت بری کیا گیا عدالت نے وہ کام کیا جو اس کی زمہ داری تھی  لیکن اس سارے عمل میں اس  پہلےمجسٹریٹ کو بھی اکیس توپوں کی سلامی ہے جس نے فوڈ انسپکٹر کے فراڈ کو اپنے

 انتظامی حکم کے زریعے قانونی تحفظ دے کر خطرناک ملزمان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری وارنٹ جاری کرکے ان کے گلے میں کورٹ میں پیشی کا ڈھول باندھ دیا

No comments: