Powered By Blogger

Thursday 19 December 2013

سندھ میں ایڈیشنل سیشن ججز کی تعیناتی چند بے قاعدگیاں سندھ ہایئکورٹ وضاحت کرے تحریر صفی الدین اعوان

12 جنوری 2012
 سندھ ہایئکورٹ کی جانب سے روزنامہ ڈان میں  اشتہار دیا گیا جس میں اہلیت رکھنے والے امیدواروں سے درخواستیں طلب کی گئیں  کہ وہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی تعیناتی کے لیئے درخواست جمع کروایئں اہلیت کا معیار بحثیت ایڈوکیٹ 6 سال پریکٹس  2005 میں ترمیم شدہ سندھ جوڈیشل سروسز رولز کے تحت بحیثیت  عدالتی افسر 6 سال سے وہ  اپنےفرائض سرانجام دے رہا ہو اس اشتہار کے نتیجے میں 850 امیدوار اہل قرار پائے جن سے ایم سی کیو ٹیسٹ لیا گیا یاد رہے کہ سلیبس حاصل کرنا امیدوار کا پورا پورا حق ہے  اس لیئے پاکستان کی تمام ہایئکورٹس بشمول اسلام آباد ہایئکورٹ  سوائے سندھ ہایئکورٹ نے باقاعدہ سلیبس  مقرر کیا ہے تاکہ امیدوار اس کے زریعے تیاری کرکے امتحان میں شریک ہوسکیں سوال یہ ہے کہ سندھ ہایئکورٹ نے کیوں نہیں مقرر کیا؟ اس کی وجوہات آگے آئیں گی مقرر شدہ سلیبس کے بغیر سندھ ہایئکورٹ نے این ٹی ایس کے زریعے ٹیسٹ لیا جس میں 176 امیدوار پاس ہوئے جس کے بعد تحریری امتحان لیا گیا  جس میں پورے سندھ سے صرف  سات امیدوار پا س ہوئے ایک سخت قسم کے تحریری ٹیسٹ میں کامیاب ہونا کارنامہ ہی ہے بدقسمتی سے پہلے ٹیسٹ میں پورے صوبہ سندھ میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے والا  تحریری ٹیسٹ میں کامیابی حاصل نہ کرسکا اور صرف ایک نمبر سے رہ گیا
این ٹی ایس کا( ایم سی کیو )ٹیسٹ کیونکہ کمپیوٹر چیک کرتا ہے اس لیئے اس پر کوئی بھی آواز نہیں اٹھائی جاتی کیونکہ کمپیوٹر اقرباء پروری نہیں کرتا لیکن تحریری ٹیسٹ میں کیونکہ انسانی ہاتھ موجود ہوتے ہیں اس لیئے اس میں کرپشن کے بھرپور چانسز موجود ہوتے ہیں اس لیئے تحریری ٹیسٹ کا رزلٹ ہمیشہ مشکوک سمجھا جاتا ہے (ایک اہم نقطہ بعد میں آئے گا وہ یہ کہ بہت سے عدالتی افسران ایم سی کیو ٹیسٹ میں کامیاب نہ ہوسکے اور بہت سے تحریری امتحان میں کامیاب نہ ہوسکے یہ اہم نقطہ زہن میں رکھیں)
مختصر یہ کہ انٹرویو منعقد ہوئے پورے سندھ میں اس وقت نو سیٹیں خالی تھیں  جبکہ سات امیدوار کامیاب ہوئے  اور وہ امیدوار صوبائی سلیکشن بورڈ کے سامنے انٹرویو کیلئے پیش ہوئے
یہاں ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیئے  جو لوگ اس قسم کے امتحانات میں شریک ہوتے ہیں انہیں بے شمار امیدیں وابستہ ہوتی ہیں  اور وہ بے تحاشا امیدیں وابستہ کرکے آتے ہیں مختصر یہ کہ انٹرویو ہوا  یہاں بھی وہی معاملہ کے ٹوٹل نمبر کتنے ہونگے؟ تحریری امتحان اور ایم سی کیو کو کس حد تک شامل کیا جائے گا اور انٹرویو کے کتنے نمبر ہونگے انٹرویو کا معیار کیا تھا کوئی پتا نہیں  مختصر یہ کہ مارچ میں انٹرویو ہوئے اور دوماہ کی تاخیر کے بعد صوبائی بورڈ نے اعلان کیا کہ صرف 3امیدوار، ان کے معیار پر پورا اترے ہیں دو کا تعلق عدلیہ سے اور ایک کا تعلق پراسیکیوشن برانچ سے تھا ایک امیدوار سہیل لغاری سندھ ہایئکورٹ میں بحثیت  جج نہیں بلکہ انتظامی فرائض سرانجام دے رہا تھا ایک ایسے بحرانی دور میں جب پورے سندھ میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ ججز کی 9 سیٹیں خالی تھیں  سہیل لغاری صاحب کو سندھ ہایئکورٹ نے کورٹ میں نہیں بھیجا بلکہ ان کے گریڈ میں اضافہ کرکے ان کو تاحال سندھ ہایئکورٹ میں ہی بطور ڈپٹی رجسٹرار رکھا گیا ہے
کیا سندھ ہایئکورٹ کسی قسم کی وضاحت پیش کرنا پسند کرے گی کہ محترم سہیل لغاری کو بطور ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج تعینات کیا گیا تھا تو ان کو کیا رکاوٹ ہے بطور جج اپنے فرائض سرانجام دینے میں؟ ہم اور آپ جانتے ہیں کہ سندھ ہایئکورٹ نے  جس اہل امیدوار کو  ایڈیشنل سیشن جج لگایا اس کو  ایڈیشنل سیشن کی ذمہ داری دینے کی بجائے بطور ڈپٹی رجسٹرار کا عہدہ دے کر بٹھانا کیا دھوکہ نہیں تو اور کیا ہے؟ امتحان جج کی تعیناتی کا ہورہا ہے اور سندھ حکومت اس کو بطور جج تعیناتی کا نوٹیفیکیشن جاری کربھی دیتی ہے  لیکن اس جج صاحب نے تعیناتی کے بعد ایک دن بھی فرائض سرانجام نہیں دیئے وہ ایک دن بھی کورٹ میں نہیں بیٹھا کیونکہ سندھ ہایئکورٹ کسی کی ذاتی جاگیر نہیں ہے کسی کی ذاتی ملکیت نہیں ہے اس لیئے ہم پورا پورا حق رکھتے ہیں کہ سوال کریں کہ آخر کیوں وہ شخص ایک دن بھی ایڈیشنل ڈسٹرکٹ سیشن جج کے فرائض سرانجام نہیں دے سکا  جس کو سندھ ہایئکورٹ  کے سلیکشن بورڈ نے بطور جج تعینات کیا سلیکشن سے پہلے سندھ میں 9 سیٹیں خالی تھیں تین جج تعینات کیئے جانے کے باوجود سات سیٹیں کیوں خالی ہیں  اور تیسرا جج کہاں ہے اگر آپ نے اس کو جج لگایا ہے تو اس کی کورٹ کیا سیارہ مریخ پر ہے؟ اگر آپ نے اس کو ڈپٹی رجسٹرار 20 گریڈ کا لگایا ہے تو کیا آپ لوگوں نے جج لگانے کیلئے  ٹیسٹ لیا تھا یا ڈپٹی رجسٹرار لگانے کیلئے سندھ ہایئکورٹ کی ویب سائٹ کے مطابق سہیل لغاری کا عہدہ  ریسرچ اور ریفارم ڈویلپمنٹ ہے ( الٹی ہی چال چلتے ہیں دیوانگان عشق آنکھوں کو بند کرتے ہیں دیدار کیلئے)
سندھ جوڈیشل رولز کے مطابق صرف وکلاء ہی امتحان میں شریک ہوسکتے تھے 2005 میں پہلی بار ترمیم کرکے عدالتی افسران کو  امتحان میں شرکت کی اجازت دی گئی لیکن شرکت کی قابلیت چھ سالہ صاف ستھرا  ریکارڈ ضروری تھا  چند عدالتی افسران نے جن کی سروس کم تھی کوشش کی کہ سروس کے ساتھ ان کا بطور وکیل عرصہ بھی شامل کیا جائے رولز میں ترمیم کی شرط کے ساتھ 2005 میں عدالتی افسران کو امتحان میں شرکت کی اجازت دی گئی لیکن جب رولز میں ترمیم نہیں ہوئی تو ماضی میں ان عدالتی افسران کو شامل نہیں کیا گیا ان سے انٹرویو کے دوران معذرت کرلی گئی کہ رول کے مطابق  کیونکہ ان کی سروس کم ہے  اس لیئے جب تک ترمیم نہیں کی جاتی ان کو شامل نہیں کیا جاسکتا میرا کالی شیروانیاں پہن کر بیٹھنے والوں سے سوال ہے کہ کیا سندھ جوڈیشل رولز میں تبدیلی کردی گئی ہے؟ کب کی گئی ہے؟ کس نے کی ہے؟ کب ایک عدالتی افسر کو بذریعہ سندھ ضوڈیشل رولز کی  سیکشن 8 (1) کی کلاز  (ڈی) میں ترمیم کرکے عدالتی افسران کو یہ نرمی دی گئی ہے کہ ان کے سروس کے تجربے کے ساتھ  ساتھ بار  میں بحیثیت گزارا گیا عرصہ بھی  شامل کرلیا گیا ہے اگر کوئی ایسی ترمیم دی گئی ہے تو اس کی ایک کاپی دی جائے یہ سوال اس لیئے کہ سندھ ہایئکورٹ کی اپنی ویب سائٹ پر موجود لسٹ کے مطابق ایڈیشنل ڈسٹرکٹ سیشن ججز کی سینیارٹی لسٹ کے مطابق محترمہ صدف کھوکھر کا سینیارٹی نمبر 80 ہے  لنک مندرجہ زیل http://www.sindhhighcourt.gov.pk/subordinate/adj.pdf
آپ کے اپنے ریکارڈ کے مطابق   جوسندھ ہایئکورٹ کی ویب سائٹ پر موجود ہےمحترمہ صدف کھوکھر کوبطور سول جج 11 نومبر 2007 میں عدلیہ میں شامل کیا گیا اور 15 مارچ 2012 کو جب انہوں نے دی گئی ڈیڈ لائن کے مطابق فارم جمع کروائے  تو ان کی سروس کو صرف  چار سال اور چند ماہ ہوئے تھے  اگر سندھ ہایئکورٹ کسی کی ذاتی جاگیر ہوتی کسی کا لی شیروانی والے کے دادا سگھڑدادا کاذاتی ورثہ ہوتی تو کوئی بھی  یہ سوال نہ کرتا لیکن سندھ ہایئکورٹ نہ تو کسی کی ذاتی جاگیر ہے اور نہ ہی کسی کا ذاتی ورثہ  ہے بلکہ سندھ ہایئکورٹ کو حکومت سندھ ہرسال اربوں روپے کے فنڈز تنخواہوں کی مد میں اور دیگر مراعات دیتی ہے  یہ تمام پیسہ کسی کالی شیروانی والے کے گھر سے نہیں آتا بلکہ عوام کے ٹیکس کا پیسہ ہے جو عوام کے خون پسینے کی کمائی سے جمع کرکے حکومت سندھ سندھ ہایئکورٹ کو ادا کرتی ہے  جس طرح باقی ادارے جواب دہ ہیں اسی طرح کالی شیروانی والے بھی جواب دہ ہیں کیسے آپ نے صدف کھوکھر کو رولز میں تبدیلی کیئے بغیر ایڈیشنل سیشن جج لگادیا یہ جواب کالی شیروانی والوں کو ہرحال میں دینا ہوگا فرشتوں کی طرح منہ بنا کر گھومنے سے کوئی فرشتہ نہیں بن جاتا کام بھی فرشتوں والے کرنے ہوتے ہیں
کسی صدف کھوکھر ہی کا راستہ روکنے کیلئے ہی  پاکستان کے  صوبہ بلوچستان ،صوبہ کے پی کے اور پنجاب میں یہ رولز  بنادیئے ہیں کہ    ایم سی کیو سے لیکر انٹرویو تک  کا طریقہ کار کیا ہوگا شفافیت کے عمل کو یقینی بنانے کیلئے ہی ایک ایک بات کی وضاحت کردی گئی ہے تاکہ کسی کو بھی الزام لگانے کا موقع نہ مل سکے  کہ سلیبس کیا ہوگا۔ طریقہ کار کیا ہوگا 2010 میں یہ طریقہ استعمال ہوا کہ جس کے نمبر تحریری ٹیسٹ میں 39 اور 47 تھے اس کے نمبرز میں این ٹی ایس  پہلے ٹیسٹ کے نمبر شامل کرکے اس کو پاس کردیا گیا کیونکہ کوئی رولز موجود ہی نہیں اس لیئے تو ذاتی جاگیر سمجھ کر سارانظام چلایا جارہا ہے جبکہ 2012 میں پورے سندھ میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے والا تحریری امتحان میں 59 نمبر لیکر فیل ہوجاتا ہے اس کو یہ رعایت نہیں ملتی  کیوں؟ جو رعایت 2010 میں تھی وہ 2012 میں کیوں نہیں؟ اور 2010 میں جس کو یہ رعایت ملی وہ کون تھے؟ کون تھے وہ لوگ آپ سے کیا تعلق تھا؟
سندھ ہایئکورٹ کو کرپشن اور فراڈ کے خاتمے کیلئے  شفافیت لانے کیلئے کسی نئی صدف کھوکھر کا راستہ روکنے کیلئے اب ڈسٹرکٹ اور سیشن ججز کی تعیناتی کے ٹیسٹ سے پہلے ہی رولز بنانے ہونگے یہ طے کرنا ہوگا کہ سلیبس کیا ہوگا ؟  باقاعدہ سلیبس حاصل کرنا  امیدواروں کاحق ہےتحریری امتحان  کا سلیبس کیا ہوگا؟ پاسنگ مارکس کیا ہونگے؟  اور وہ مستقل رولز ہونگے سب سے اہم بات یہ کہ لسٹ کیسے فایئنل ہوگی ایم سی کیو اور   تحریری امتحانات کے نمبرز کی بنیاد کیا ہوگی اور انٹرویو کس حد تک اپنا کردار ادا کرے گا انٹرویو کے عمل کو بھی  شفاف بنانے کیلئے رول بنانے کی ضرورت ہے  جب پنجاب کے نوجوانوں کیلئے  مکمل رولز بنائے جاسکتے ہیں جب کے پی کے میں ججز کی تعیناتی کا مکمل طریقہ کار بیان کیا جاسکتا ہے  جب اسلام آباد ہایئکورٹ امتحانی رولز بناسکتی ہے جب بلوچستان کے نوجوانوں کیلئے امتحانی رولز بنائے جاسکتے ہیں  تو سندھ میں کیوں نہیں میں الزام لگا رہا ہوں یہ رولز اس لیئے نہیں بنائے گئے کیونکہ اگر رولز بنا دیئے گئے تو پھر کسی صدف کھوکھر کو جج نہیں لگا یاجا سکے گا سب سے بڑا لطیفہ یہ کہ وہ ججز جو( ایم سی کیو) اور تحریری ٹیسٹ میں فیل ہوگئے تھے ان کو جس دن تین امیدواروں کو بطور ایڈیشنل سیشن جج کی تعیناتی کا نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا اسی دن  ان فیل امیدواروں کو محکمہ جاتی ترقی دے  دی گئی
اس معاملے پر  یہ بات تو واضح ہے کہ اب رولز کے بغیر کوئی ٹیسٹ  منعقد نہیں کرنے دیا جائے گا
سندھ ہایئکورٹ کے ان اقدامات کے خلاف  جون 2013 میں پورے سندھ کی عدالتوں میں سندھ بار کونسل احتجاجی ہڑتال کرچکی ہے اور پریس کانفرنس میں لگائے گئے الزامات تاریخ کا حصہ ہیں جن کا آج دن تک سندھ ہایئکورٹ نے کوئی جواب نہیں دیا؟ اصولی طور پر ان کو جواب دینا چاہیئے تھا عوامی ردعمل کے نتیجے میں 20 عدالتی افسران کو دکھاوے کیلئے شوکاز نوٹس جاری کیئے گئے اگر سندھ ہایئکورٹ   نے ان کے خلاف کوئی کاروائی کی ہے تو عوام کو آگا ہ کیوں نہیں کیا گیا؟  کیوں میڈیا میں اتنا ڈھنڈورا پیٹا گیا کہ ججز کو شوکاز جاری ہوگئے ہیں
یہ تفصیلی مضمون کل تمام متعلقہ اداروں کو بھیج دیا جائے گا جس میں چیف جسٹس سندھ ہایئکورٹ، سندھ بار کونسل، چیف جسٹس آف پاکستان،اسپیکر قومی اور صوبائی اسمبلی سندھ
جہاں تک تعلق ہے شناخت کا میرانام صفی الدین اعوان ہے سندھ بار کونسل سے انرولمنٹ ہے اور میرا انرولمنٹ نمبر/ 11949 ہے  میرا فون نمبر 03343093302 یہ تفصیل اس لیئے لکھ دی ہیں کیونکہ اس رپورٹ کی اشاعت سے روکنے کیلئے مجھے کل رات سے یہ دھمکی دی جارہی تھی اور سوشل میڈیا پر وسیع پیمانے پر افواہیں اڑائی گئیں  کہ ایف آئی اے  کے سایئبر کرائم یونٹ والے میرے پیچھے ہیں وہ تحقیقات کررہے ہیں تو جناب ہم  اتنے کمزور ہر گز نہیں کہ کوئی ایف آئی والا گلاب جامن سمجھ کر کھا لے گا اگر کسی کو شوق ہے تو پورا کرلے
 کسی ادارے کو بدنام کرنے کا کوئی سوال ہی نہیں جس ادارے کے حوالے سے بات کی جارہی ہے وہ خود کیوں نہیں وضاحت کرتا پبلک کے ٹیکس سے چلنے والے ادارے ہرحال میں عوام کو جواب دہ ہیں
تحریر صفی الدین اعوان






No comments: