Powered By Blogger

Tuesday 3 December 2013

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ساؤتھ احمد صبا صاحب آپ کا شکریہ

ضابطے انصاف کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتے
http://tlspk.blogspot.com/2013/12/blog-post_3.html اردو بلاگ 
ایس ایچ او نے  ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ساؤتھ محترم احمد صبا کے سامنے رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ میں خود بچہ برآمد کرنے گیا تھا لیکن سامنے والی پارٹی چالاک ہے مکان پر تالا لگا کر غائب ہوگئی اور میں  قانونی ضابطے کے تحت اپنے تھانے کی حدود سے باہر نہیں جاسکتا سیشن جج نے کہا ضابطے انصاف کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتے اس غریب اور مظلوم ماں کی فریادوں نے عرش معلی کو ہلا کررکھ دیا ہے  ضابطے انصاف کو بے بس نہیں کرسکتے ضابطے انصاف کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتے  عدالت حکم دیتی ہے کہ جاؤ اور بچہ برآمد کرکے لاؤ اس بچے کی برآمدگی کیلئے پورا پاکستان تمہاری حدود ہے ایجنسی لگاؤ،مخبر لگاؤ یا جو بھی طریقہ استعمال کرو بچہ ماں کے حوالے کرنا ہے  سیشن جج ساؤتھ نے ایس ایچ او کو مخاطب کرکے کہا ہوسکتا ہے کہ یہی نیکی آپ کی بخشش کا باعث بن جائے
مختصر قصہ یہ تھا کہ ہمارے عدالتی نظام سے منسلک ایک اہم شخصیت کے بیٹے نے گھریلو جھگڑے کے بعد صرف 15 دن کا بچہ ماں سے چھین کر اس کو گھر سے نکال دیا تھا جس کے بعد وہ مظلوم ماں گزشتہ ایک ماہ سے عدالتوں کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور تھی عدالتی نظام سے منسلک اہم شخصیت قانون کی مجبوریوں کو سمجھتی تھی  اس لیئے جب ڈسٹرکٹ ملیر میں لاء سوسائٹی پاکستان کی ممبر بورڈ آف ڈائریکٹر عشرت سلطان نے پٹیشن فائل کی تو  عدالت سے مخبری کے بعد وہ بچہ  دوسرے ضلع منتقل کردیا گیا اور جب ساؤتھ میں پٹیشن لگائی تو وہاں سے بھی اسٹاف کی جانب سے مخبری کے بعد بچہ پھر غائب کردیا گیا اس طرح ایک ماہ کا عرصہ گزرچکا تھا گزشتہ دنوں جب یہ سارے معاملات  محترمہ عشرت سلطان صاحبہ  نےسیشن جج کے سامنے پیش کیئے اور اس عورت کی چیخیں اور فریادیں بھی جب سیشن جج کی برداشت سے باہر ہوگئیں تو انہوں نے محمودآباد تھانے کے ایس ایچ او  سرور کمانڈوکو طلب کیا ۔  جو اس وقت انسداد دہشتگردی کی عدالت میں کسی مقدمے کے سلسلے میں موجود تھےسرور کمانڈو خود بھی ایک بااثر ایس ایچ او ہے اور پولیس مقابلوں کا ماہر ہے  جب سیشن جج کے سامنے پیش ہوئے اورسیشن جج نے جب معاملات پوچھے تو ایس ایچ او     نے قانونی مجبوریوں سے آگاہ کیا اور کہا کہ ضابطے کے تحت وہ اپنے تھانے کی حدود سے باہر نہیں جاسکتے 
جس کے بعد سیشن جج نے کہا کہ ضابطے انصاف کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتے اس بچے کی برآمدگی کیلئے پورا پاکستان تمہاری حدود ہے میں جانتا ہوں کہ کراچی پولیس جو اتنی  صلاحیت رکھتی ہے کہ دبئی سے ملزم گرفتار کرکے لے آتی ہے تو کراچی کی حدود میں ایک بچہ برآمد کرنا کیا مسئلہ ہے اللہ آپ کو ہمت دے اور ہوسکتا ہے اس مظلوم ماں کی دعا ہی تمہاری بخشش کا زریعہ بن جائے
مختصر یہ کہ ایس ایچ او صاحب نے پولیس کے جدید ترین نظام سے  بچے کا کھوج نکالا اور کراچی میں ہی ایک خفیہ مقام پر رکھے ہوئے اس بچے کو برآمد کرلیا  جو ایس ایچ او کی تھانہ حدود سے باہر تھا عدالتی نظام سے منسلک شخصیت نے اس موقعے پر قانونی ضابطہ توڑنے پر بہت دھمکیاں دیں  پیٹی اتروانے سے لیکر عدالت میں گھسیٹنے تک اور حکم دینے کی کوشش کی کہ اپنے تھانے کی حدود تک محدود رہو  لیکن ایس او نے دو جوتے مار ے اور اسی کو گھسٰیٹ کر تھانے لے گیا بچہ مظلوم ماں کے حوالے کیا اور ایک ماہ سے بے قرار مامتا کو سکون مل گیا واقعی ضابطے انصاف کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتے اور وہ  "اہم شخصیت" جو اپنے عہدے کا ناجائز فائدہ اٹھا کر انصاف کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی تھی  دوسرے دن جب عدالت میں  مقدمہ پیش ہوا تو ان کے اندر اتنی اخلاقی جرات نہ تھی کہ  اوہ سیشن جج کا سامنا کرپا اس لیئے پیش ہی نہیں ہوئے
لیکن جج میں جرات ہونی چاہیئے بھادری ہونی چاہیئے سب سے بڑھ کر لوگوں کو انصاف فراہم کرنے کا سچا جذبہ اور لگن ہونی چاہیئے
شکریہ احمد صبا صاحب ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ساؤتھ آپ نے  انصاف کی فراہمی کیلئے حق ادا کردیا
آپ اندازا نہیں لگا سکتے اس ماں کی خوشی کا ان آنسوؤں کا جو اس خوشی کے موقع پر اس ماں  نے عدلیہ کے حق میں ادا کیئے  عدلیہ اپنی ذمہ داری ادا کرے تو پاکستانیوں کیلئے اس بڑا دادرسی کا کوئی اور ادارہ موجود نہیں

تحریر :صفی الدین اعوان

No comments: