Powered By Blogger

Thursday 5 December 2013

عدلیہ کی آزادی پر شب خون مارنے کی تیاریاں مکمل ضرورت سے زیادہ لالچ اور اقرباء پروری اصل وجہ


عدلیہ کی آزادی کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ عدلیہ کو ججز کی تعیناتی میں مکمل آزادی حاصل ہوگی بدقسمتی سے اس آزادی کا درست استعمال نہیں ہوا ۔اقرباء پروری کا سب سے بڑا واقعہ اس وقت سامنے آیا جب جب ایک ٹریبونل کی سربراہ کو ایڈیشنل جج سندھ ہایئکورٹ لگانے کی کوشش کی گئی تو سب سے بڑا اعتراض یہ سامنے آیا کہ  ٹریبونل کا عہدہ  سیشن جج کے برابر تو ہے لیکن سیشن جج نہیں  جس کے بعد اس اعتراض کو دور کرنے کیلئے  ان کو سیشن جج لگایا گیا اور قانونی تقاضہ پورا کرکے ان کو ایڈیشنل جج سندھ ہایئکورٹ لگادیا گیا اس دوران جوڈیشل کمیشن میں جو ڈرامے ہوئے اور جس طرح مختلف تقرریاں کی گئیں وہ ایک الگ داستان ہے کیونکہ اسٹیک ہولڈرز کہتے تھے بے شک سپریم کورٹ کے تمام جسٹس اپنی بیویاں ہایئکورٹ کے جج لگا دیں لیکن تھوڑا ہمارا بھی " حصہ" رکھو مل جل کر کھاؤ اکیلے مت کھاؤ اس سارے چکر میں  اقرباء پروری کی تعریف ہی بدل گئی چند لوگوں کی ضرورت سے زیادہ لالچ اور ندیدے پن نے عدلیہ کی خودمختاری کو ہی داؤ پر لگا دیا
پارلیمینٹیرین کے پا س سب سے بڑی دلیل یہی ہے کہ  وہ دیکھو فلاں سپریم کورٹ کے جسٹس نے اپنی بیوی کو ہی  کنفرمیشن کی ٹھوس ضمانت  کے ساتھ جج لگا کر عدلیہ کی آزادی کا ثبوت دے دیا ہے 
مختصر یہ ہے کہ چند لالچی افراد نے اقرباء پروری کے ریکارڈ توڑ کر عدلیہ  کی آزادی پر شب خون مارنے کی راہ ہموار کردی ہے
آج  روزنامہ جنگ میں انصار عباسی کی رپورٹ  ملاحظہ فرمایئں


 "پارلیمنٹ کی بالادستی کے نام پر، حکومت اور اپوزشن سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتیں ملک کی آزاد عدلیہ پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہی ہیں جس کے تحت اعلیٰ ترین عدلیہ کے ججوں کی تقرری کے اختیار کا فیصلہ پارلیمانی کمیٹی کے سپرد کیا جائے گا۔ یہ معلوم نہیں کہ پاکستان تحریک انصاف اس اقدام پر کس طرح کے رد عمل کا اظہار کرے گی لیکن امکان ہے کہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، اے این پی، ایم کیو ایم وغیرہ سینیٹ میں ایک بل پیش کریں گے جس کے تحت ججوں کے تقرری کے معاملات میں جوڈیشل کمیشن پر پارلیمانی کمیٹی کو فوقیت دی جائے گی۔ گزشتہ حکومت میں اتحادی جماعتیں، پیپلز پارٹی، اے این پی اور ایم کیو ایم اپنے دور حکومت میں عدلیہ پر تنقید اور ججوں کے تقرر کے معاملے میں پہلے ہی آواز بلند کرتی رہی ہیں۔ لیکن اب اقتدار میں آنے کے بعدمسلم لیگ (ن) کے رہنمائوں نے بھی پاکستانی عوام کی امیدوں کا مرکز سمجھی جانے والی عدلیہ پر تنقید کرنا شروع کردیا ہے۔ پس پردہ بات چیت کے دوران مسلم لیگ (ن) کے رہنما عدلیہ پر غم و غصے کا اظہار کرتے ہیں کیونکہ حکومت اس ملک کواپنی ذاتی جاگیر سمجھ کر چلانا چاہتی ہے اور عدلیہ اس بات کی اجازت نہیں دیتی۔ جس آزاد عدلیہ کا سہرا مسلم لیگ (ن) اپنے سر باندھتی ہے اب وہی جماعت اسے ایک رکاوٹ سمجھنے لگی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کھل کر اب بھی عدلیہ کے خلاف بات کرنے سے ہچکچا رہی ہے لیکن جو کچھ سینیٹ میں نواز لیگ کے قائد ایوان راجہ ظفر الحق اور دیگر جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز نے کیا وہ سیاست دانوں کی عدلیہ کو کمزور کرنے کی پالیسی کا حصہ تھا تاکہ ججوں کے تقرر کا معاملہ اپنے ہاتھوں میں لے لیا جائے۔ مسلم لیگ (ن) کے سینئر سینیٹر نے ایوان بالا میں پیر کو اشارتاً بتایا کہ آنے والے دنوں میں کیا ہونے والا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت سمجھتی ہے کہ ججوں کے تقرر کا معاملہ شفاف ہونا چاہئے تاکہ کوئی بھی تقرری کے عمل پر انگلیاں نہ اٹھا سکے۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر کی تحریک پر بحث سمیٹتے ہوئے راجہ ظفر الحق نے کہا کہ وکلا برادری اور بار ایسوسی ایشنز کے ساتھ مشاورت کے بعد ججوں کے تقرر کے معاملے پر ایک سب کمیٹی تشکیل دیدی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم مختلف اداروں کے درمیان کشیدہ تعلقات نہیں چاہتے۔ اس کی بجائے اہل اور لائق افراد کا تقرر کرنے کیلئے ایک شفاف طریقہ کار ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ سب کمیٹی نے سینیٹر فاروق نائیک سے دو مرتبہ ملاقات کی ہے اور کام مکمل ہونے پر ایوان کو اعتماد میں لیا جائے گا۔ اسی اجلاس میں پیپلز پارٹی کے سینیٹر سعید غنی نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن کے 9؍ ارکان میں سے 6؍ جج ہیں اور کوئی سیاسی بنیادوں پر مقرر شخص نہیں ہے۔ ان کی رائے تھی کہ ججوں کے تقرر کے لیے قائم پارلیمانی کمیٹی کا کردار بہت محدود ہے۔ انہوں نے کہا کہ یا تو اس کمیٹی کو ختم کردیا جائے یا پھر کمیٹی کو مضبوط بنانے کے لیے مناسب میکنزم مرتب کیا جائے۔ سینیٹر کریم خواجہ کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ، دونوں، کو ججوں کے تقرر کے طریقہ کار کا جائزہ لینا چاہئے تاکہ پارلیمنٹ کی خودمختاری قائم کی جا سکے۔ سینیٹر زاہد خان نے تجویز دی کہ اپوزیشن اور حکومت کو اس معاملے میں کوئی متفقہ حکمت عملی مرتب کرنے کے لیے ہاتھ ملا لینا چاہئے۔ حاجی محمد عدیل نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی صرف پوسٹ آفس کا کردار ادا کر رہی ہے کیونکہ اس کے پاس جوڈیشل کمیشن کی سفارشات منظور کرنے کے سوا اور کوئی آپشن نہیں۔ ق لیگ کے مشاہد حسین کا کہنا تھا کہ یہ فیصلے کا درست وقت ہے۔ 18ویں ترمیم کے مطابق، چیف جسٹس پاکستان کی زیر قیادت جوڈیشل کمیشن کو ججوں کے تقرر کے معاملے میں فوقیت حاصل ہوگئی۔ بعد جوڈیشل کمیشن کی جانب سے ہائی کورٹس کے 6 ایڈیشنل ججوں کو عہدوں میں توسیع دینے کی تجویز کو پارلیمانی کمیٹی کی جانب سے مسترد کیے جانے کے مقدمہ میں سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا تھا جس کے تحت پارلیمانی کمیٹی کے فیصلے کا جائزہ سپریم کورٹ کی عدالتی نظرثانی کے زمرے میں آتا ہے۔ عدلیہ کی جانب سے ایگزیکٹو کے غلط کاموں اور بے ضابطگیوں پر سوالات اٹھاتے ہوئے دیکھ کر سیاست دان اب چاہتے ہیں کہ جو کچھ پارلیمنٹ نے 18ویں ترمیم کے معاملے میں کیا وہ سب دوبارہ ختم کردیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی، سیاست دان سپریم کورٹ کے از خود نوٹس لینے کے اختیار سے بھی بے چین ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے از خود نوٹسز کو عوام امید کی آخری کرن سمجھتے ہیں۔ مثال کے طور پر، گمشدہ افراد کے کیس میں ایگزیکٹو اور پارلیمنٹ صرف تماشائی بنے ہوئے ہیں لیکن یہ سپریم کورٹ ہے جس نے از خود نوٹس کے ذریعے ہی مداخلت کی اور سیکیورٹی ایجنسیوں کے اس غیر قانونی اور غیر آئینی اقدام کو ختم کیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سیاست دان اب وکلا برادری میں کچھ گروپوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں کہ وہ سپریم کورٹ کے از خود نوٹس لینے کے اختیارات اور ججوں کی تقرری کے موجودہ طریقہ کار کے خلاف آواز اٹھائیں۔


No comments: