Powered By Blogger

Tuesday 26 November 2013

2014 غیرقانونی حراست کے خاتمے کا سال لاپتہ افراد کی واپسی کا سال

10 دسمبر انسانی حقوق کا عالمی دن ہے جو اقوام متحدہ کے زیراہتمام منایا جاتا ہے  دنیا بھر میں موجود انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں 10 دسمبر کو مختلف  قسم کی تقاریب منعقد کرتی ہیں  لاء سوسائٹی پاکستان نے 2014 کو "پاکستان سے غیرقانونی حراست کے خاتمے کے سال" کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا ہے  انشاءاللہ 2014 پاکستان سے غیرقانونی حراست کے خاتمے اور لاپتہ افراد کی واپسی کا سال ہوگا ہمار ی اس ایک سالہ مہم  کا مقصد ڈسٹرکٹ کورٹس  کی کارکردگی کو بہتر بناکر تھانوں کی سطح سے غیرقانونی حراست کا مکمل خاتمہ ہے  لاء سوسائٹی پاکستان 10 دسمبر 2013 سے  اس سلسلے میں ایک بھرپور مہم شروع کررہی ہے جو پورا سال جاری رہے گی
 لاء سوسائٹی کو پوری کوشش ہوگی کہ اس  روایتی طریقہ کار کو آسان ترین بنایا جائے  دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے اور وہ تمام مشکلات دور کی جائیں جس کے تحت عدالتی حکم پر  غیرقانونی حراست کے خاتمے کیلئے عدالت کی جانب سےتھانے کا ریکارڈ چیک کیا جاتا ہے ہماری (تجویز) ہے اورکوشش ہوگی کہ عدلیہ کی جانب سے منتخب اضلاع میں "ریسکیو" طرز کی سروس متعارف کروانا ہے جس کے تحت  غیرقانونی حراست کی شکایت کی صورت میں  ضروری  قانونی کاروائی پوری ہونے کے بعددس  منٹ میں عدالتی اسٹاف یا بیلف  تھانے پہنچ کر عدالت کے حکم پر تھانے کا ریکارڈ چیک کرے تجویز ہے کہ یہ ساری کاروائی  ویڈیو کیمرے کے زریعے ریکارڈ کرکے  فوری طور پر  کاروائی کی ویڈیو سیشن جج  اور صوبے کے چیف جسٹس کو آن لائن سسٹم کے زریعے ہی ای میل کردی جائے   اور ویڈیو کو قانونی کاروائی کا حصہ بنایا جائے تاکہ کسی بھی قسم کی کرپشن کا سوال ہی پیدا نہ ہو کیونکہ اکثر اوقات  بیلف بھی تھانے پہنچ کر "ڈیل " کرلیتا ہے بیلف کو یہ بھی اختیار دیا جائے کہ اگر مطلوبہ شخص کے علاوہ بھی کوئی شخص غیرقانونی حراست کا شکار ہوتو اس کو بھی کاروائی کا حصہ بنایا جائے  اور پولیس کے خلاف کاروائی کی جائے  ہماری یہ بھی تجویز ہے کہ ایسا سسٹم بنایا جائے جس کے بعد بیلف تھانے میں 10منٹ سے زیادہ نہ رہے بلکہ کم سے کم وقت میں کاروائی رپورٹ کردے
ہماری 10 دسمبر 2013 سے شروع ہونے والی مہم کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ عدلیہ کوئی ایسا طریقہ کار طے کرے جس کے تحت 24 گھنٹے غیر قانونی حراست کے خلاف کاروائی کی سہولت موجود ہو اس پر عدلیہ کو کم زکم ایک سال ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا کیونکہ پولیس نے بدقسمتی سے عدلیہ کو مذاق سمجھ لیا ہے اور ملزمان کی گرفتاری کے بعد قانونی تقاضے پورے نہیں کرتے
بنیادی طور پر پورے پاکستان میں یہ مسئلہ چل رہا ہے کہ پولیس خطرناک ڈاکو اورملزمان کو پکڑ کر تھانے لاتی ہے لیکن ان کی گرفتاری ظاہر نہیں کرتی اور پولیس کی کوشش ہوتی ہے کہ ملزمان  سے رشوت وصول کرکے ان کو تھانے سے رہا کردیا جائے اس قسم کے روزانہ واقعات کی تعداد پورے پاکستان میں ہزاروں میں ہے جس کی وجہ سے جرائم کی شرح بڑھ رہی ہے  ہمارا صرف ایک ہی مطالبہ ہے کہ جب کسی بھی پاکستانی شہری کو گرفتار کیا جائے تو اس کی گرفتاری  فوری طور پر کردی جائے  اور اس میں ایک بھی لمحے کی تاخیر مجرمانہ غفلت ہے  اس سے ایک مزید فائدہ یہ بھی ہوگا کہ قابل ضمانت جرائم میں ملوث افراد کو پولیس رہا کردے گی شخصی ضمانت پر کیونکہ اگر قابل ضمانت جرم میں ملوث ملزم کی طرف سے شخصی ضمانت آجائے تو پولیس رہا کرنے کی پابند ہے
بدقسمتی سے پولیس کی ہمت اسقدر بڑھ چکی ہے کہ انہوں نے مختلف مکانات ،رہائیشی بنگلوں،فلیٹوں اور فارم ہاؤسز میں  نجی طور پر  بہت بڑی تعداد میں تفتیشی مراکز قائم کررکھے ہیں جہاں لوگوں کو اغوا کرکے لایا جاتا ہے اور تاوان وصول کرکے چھوڑدیا جاتا ہے اکثر اوقات حقیقی ملزم بھی پکڑ لیئے جاتے ہیں لیکن ان سے ڈیل کرکے رہا کیا جاتا ہے  پاکستان  خصوصاًکراچی کی پولیس دنیا کی بہترین پولیس ہے  پاکستان پولیس  کی تفتیش کی صلاحیت کسی بھی طرح "اسکاٹ لینڈ یارڈ" سے کم نہیں ہے
کراچی پولیس کی خفیہ ایجنسیاں سی آئی ڈی اور (اے وی سی سی) کسی بھی جرم کا جڑ سے خاتمہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں لیکن بدقسمتی سے مؤثر کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے وہ مجرم ختم کرنے کی بجائے ان کو تحفظ دے رہی ہیں ریاست کی جانب سے دی گئی طاقت پر نگرانی نہ ہونے کی وجہ سے  اغواء برائے تاوان میں ملوث ہوگئی ہیں ایک طرف وہ  ہمارے بچوں کے ہاتھ میں ہتھیار دے کر ان کو "ڈان" بناتے ہیں اور وہی بچے جب ان کے قابو سے باہر ہوتے ہیں تو ہماری ایجنسیاں اسی خطرناک  "ڈان" کو مارکر یا دوسرے "ڈان" سے مرواکر ہم سے خراج تحسین بھی وصول کرلیتی ہیں
اندازہ لگایئے کہ کراچی کا ایک "اہم تھانہ" روزانہ ایک لاکھ روپیہ "اوپر" پہنچا رہاہے اگر روز کا ایک لاکھ اوپر پہنچ رہا ہے تو وہ خود کتنا کماتے ہونگے  یہ پیسہ پولیس پاکستان کے معصوم شہریوں سے ہی وصول کرتی ہے اور زیادہ تر پیسہ اغواء برائے تاوان یعنی شہریوں کو  اغواء کرکے تھانے میں بند کرنے کے بعد غیرقانونی حراست میں رکھنے کے بعد رہا کرکے وصول کیا جاتا ہے یہ صرف ایک تھانے میں نہیں پورے کراچی میں یہی صورتحال ہے جبکہ پاکستان بھر میں شہری اس نوعیت کے مسئلے کا شکار ہیں
لیکن جب شفافیت کا نظام موجود نہ ہو جب احتساب کا طریقہ کار ہی موجود نہ ہو  تو پولیس   خودبخود ہی کرپشن کی جانب گامزن ہوجاتی ہے ہم چاہتے ہیں عدلیہ وہ ذمہ داری ادا کرے جو آئین پاکستان نے شہریوں کے تحفظ کیلئے اس کے سپرد کی ہے غیرقانونی حراست کا خاتمہ صرف عدلیہ ہی کرسکتی ہے صرف اور صرف عدالت ہی اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کرسکتی ہے
ہم ایک ایسا پاکستان چاہتے ہیں جہاں ہر شہری کی عزت ،مال اور آبرو سلامت رہے

صفی الدین اعوان

safilrf@gmail.com

No comments: