Powered By Blogger

Thursday 28 November 2013

منور حسن اور مولانا فضل الرحمن جیسے نا اہل لیڈر ملک کو کس طرح مشکل صورتحال سے دوچار کردیتے ہیں

نا اہل  لیڈر ملک کو کس صورتحال سے دوچار کردیتے ہیں اس کا نتیجہ ہم نے گزشتہ دنوں بھگت لیا  جب  دو قومی سطح کے لیڈران نے پاک فوج کے سپاہیوں کی شہادت اور کتے کو شہید قرار دینے کے حوالے سے ملک میں ایک بلاوجہ کی بحث چھیڑ دی
قومی سطح کے لیڈر اتنے حاظر دماغ ہوتے ہیں کہ وہ اپنی حاضر دماغی اور ذہانت سے  مشکلات کو ٹال دیتے ہیں  آخر کیا وجہ ہے کہ ایک عام سا شخص کروڑوں افراد کی دلوں کی دھڑکن بن جاتا ہے آخر وہ کونسی صلاحیت ہے جو ایک عام شخص کو دوسروں سے ممتاز کردیتی ہے
انٹرویو کرنے والے نے لیڈر کو مشکل میں پھنسانا ہوتا ہے اور مشکل سوال کرکے لیڈر کو بند گلی میں داخل کرکے اس کے پیروکاروں کو امتحان میں ڈالنا ہوتا ہے سلیم صافی صاحب نے بہت ہی طریقے سے جال لگاکر جماعت کے سادہ دل لیڈر کو گھیرا اور گھیر گھار کر بند گلی میں لے گئے اور جماعت کے امیر سید منور حسن سے وہ باتیں کہلوا دیں جو ایک جو وہ نہیں کہنا چاہتے تھے سلیم صافی نے اپنی ذہانت اور امیر صاحب نے اپنی نالائقی پوری طرح ثابت کردی
برٹش دور میں غدر کے دوران  فرنگی  پولیس کے ہمراہ ایک شیخ الحدیث کو گرفتار کرنے آئے  اتفاقاً وہ مسجد کے باہر ہی کھڑے تھے پولیس والوں نے پوچھا کہ مولانا صاحب کہا ں ہیں کیونکہ پولیس والے مولانا صاحب کو جانتے نہیں تھے اور شیخ الحدیث صاحب جھوٹ بول کر جان بھی نہیں بچانا چاہتے تھے اس لیئے وہ دوقدم پیچھے ہٹ گئے اور جہاں وہ پہلے کھڑے تھے اس مقام  کی طرف اشارہ کرکے کہا ""ابھی تو یہاں تھے"" اس طرح پولیس  جب تلاشی لینے گئی تو انہوں نے روپوش ہوکر جان بچائی یہ حاضر دماغی بڑے کام کی چیز ہے
اسی طرح میرے  پیرطریقت امام  اہلسنت مجدد دین وملت پروانہ شمع رسالت عظیم البرکت عظیم المرتبت الشاہ احمدرضاخان فاضل بریلوی سے پوچھا گیا کہ امام ابوحنیفہ کا رتبہ زیادہ ہے  یا سیدنا غوث پاک کا آپ نے کہا کہ یہ دونوں آنکھیں ہیں سوال کرنے والے پوچھا کہ ان میں سے سیدھی آنکھ  کونسی ہے  اور باہنی آنکھ کونسی ہے آپ نے حاضر جوابی سے کہا اس میں باہنی ہے ہی نہیں دونوں ہی داہنی یعنی سیدھی آنکھیں ہیں کیونکہ آپ سوال کرنے والے کی نیت کو بھانپ گئے تھے
وکلاء تحریک کے دوران لانگ مارچ بھی آگیا اور عید میلادالنبی کا موقع بھی آگیا اس موقع پر وکلاء سیا ہ جھنڈے لہرا رہے تھے اور علماء اہلسنت اس موقع پر جشن کے قائل ہیں ان کا ایک وفد محترم اعتزاز احسن کے پاس گیا اور کہا کہ آپ  سیاہ جھنڈے نہ لہرایئں کیونکہ اس سے ربیع الاول کا تقدس پامال ہوتا ہے مجھے اندازا تھا کہ شاید اعتزاز بند گلی میں نہ پھنس جائے اور علماء اکرام کو قائل نہ کر پائے لیکن اس دن مجھے اندازا ہوا کہ وہ لوگ  جو لیڈر ہوتے ہیں وہ  ایسے ہی نہیں بن جاتے بلکہ اس کے پیچھے ان کی ذہانت ہوتی ہے ان کو پتہ  ہوتا ہے کہ ان کی زبان اگر غلط پھسل گئی تو بے شمار مسائل پیدا ہوسکتے ہیں اعتزاز صاحب نے کہا کہ میں کالا جھنڈا کیوں نہ لہراؤں کیونکہ میرے تو آقا کی کملی ہی کالی ہے یہ جواب دیکر اعتزا ساحب نے نہایت ہی خوبصورتی سے ساری بحث ہی سمیٹ دی اس دن میں اعتزاز کی ذہانت کو خراج تحسین پیش کرنے پر مجبور ہوگیا

تو جناب بات کچھ بھی نہیں قومی لیڈر کوئی بھی بیان داغنے سے پہلے سوچ لیا کریں اور قوم بھی جب کسی لیڈر کو لیڈر بناتی ہے تو دیکھ بھال کر بنائے میں ادب سے کہتا ہوں کے ایک اچھا لیڈر ایک حاظر جواب لیڈر ان تمام سوالوں کو ٹال سکتا تھا جو سلیم صافی صاحب نے سید منور حسن صاحب سے کیئے اور صحافیوں نے فضل الرحمن سے کیئے

No comments: