Powered By Blogger

Wednesday 13 November 2013

عدلیہ کی آزادی پر یقین رکھتے ہیں لیکن بداخلاقی پر مبنی آزادی ہمیں قبول نہیں

میں پاکستان کی پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ آف پاکستان کی توجہ ایک اہم معاملے کی جانب دلانا چاہتا ہوں  اور وہ یہ ہے کہ پاکستان کی عدلیہ "رشتے داروں اور اپنے بچوں"کے معاملات میں اپنی آزادی کا ناجائز فائدہ اٹھا رہی ہے  جس سے ملکی سلامتی  اور پیشہ وکالت کو شدید خطرات لاحق ہیں   عدلیہ کی جانب سے خودہی بنائے گئے عدالتی اصول اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ ججز کے بیٹے ،بیٹیاں،بھانجے،بھتیجے،داماداور دیگر رشتے دار ان عدالتوں میں پریکٹس کریں جہاں ان کے والد یا انکل بطور جسٹس  اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہوں جس ہایئکورٹ میں باپ یا انکل بطور جسٹس اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہوں وہاں ان کے رشتے داروں کو "فیس ویلیو" کے نام پر ہرقسم کا خصوصی ریلیف ملتا ہے ان کے مقدمات خصوصی بنیادوں پر چلائے جاتے ہیں جبکہ ٹریبونل اور سب آرڈینیٹ کورٹس کے ججز  ان کے پریشر میں ہوتے ہیں اور رشتے دار مافیا کو  خصوصی ریلیف دینے پر مجبور ہوتے ہیں بعض مقامات پر ججز خاموش "کوآپریٹو سوسائٹی" بناکر ایک دوسرے کے بچوں کو خصوصی ریلیف دیتے ہیں
پاکستان بننے سے پہلے یہ اصول موجود تھا کہ جب کسی جسٹس کا بیٹا بطور وکیل اپنی  پریکٹس کا آغاز کرتا تو بیٹےکو اجازت نہ تھی کہ وہ اس صوبے میں پریکٹس کرے جہاں اس کا والد بطور جسٹس  اپنے فرائض سرانجام دے رہا ہو بلکہ اس مقصد کیلئے اس کو دوسرے صوبے  میں بطور وکیل پریکٹس کرنا ہوتا تھا اس کا واضح مقصد یہ ہوتا تھا کہ وہ ان عدالتوں میں اپنے والد اور والد کے دوستوں سے  بد اخلاقی پرمبنی خصوصی ریلیف حاصل  نہ کرسکیں جہاں ان کا والد بطور جسٹس اپنے فرائض سرانجام دے رہا ہو لیکن اس اصول کی تبدیل کیا گیا ختم کیا گیا اور ججز کے بچوں کو بطور وکیل ان عدالتوں میں پیش ہونے کی اجازت دے دی گئی جہاں ان کا والد بطور جسٹس فرائض سرانجام دے رہا ہو اس  سے عدالتوں میں کرپشن کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا جو آج تک جاری ہے اور بداخلاقی کی انتہا دیکھیں کہ  اکثر جسٹس صاحبان کی اولاد ان کے فرنٹ مین کے طور پر کام کرتی ہے   اور اکثر ججز اپنے بچوں کی لاء فرم کی خصوصی سرپرستی کرتے ہیں یہاں تک کہ حصول برکت کیلئے رزق میں مزید اضافے کیلئےاپنے بچوں کے  لاء فرم کے چیمبر میں بھی  بیٹھ کر چیمبر کو "دم " کرتے ہیں  جو کہ بداخلاقی کی ایک بدترین مثال ہے
دنیا بھر  میں جسٹس صاحبان کو چند اصولوں کا پابند کیا گیا ہے اور وہ اصول اسقدر سخت ہیں  کہ اگر کسی جسٹس کا بیٹا وکیل ہو تو وہ اس رہائیش گاہ کو بھی استعمال نہیں کرسکتا جہاں جسٹس قیام پذیر ہو کیونکہ لازمی طور پر وہ مقدمات پر اثرانداز ہونے کی کوشش کرسکتا ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان کی عدلیہ نے اپنی آزادی کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسے کوئی اصول بنانے کی زحمت اس لیئے نہیں کی کیونکہ ججز کی اولاد اور ان کے رشتے دار اپنی پریکٹس کے زریعے کروڑوں روپے ماہانہ کماتے ہیں   دوسرے الفاظ میں یہ مافیا بن چکے ہیں دیگر ممالک  کی باضمیر عدلیہ  شفافیت کے معاملے میں اس حد تک آگے جاچکی ہے کہ اگر  کسی جسٹس کے رشتے دار زیادہ ہوں تو سفارش کی جاتی ہے کہ وہ دوسرے صوبے میں اپنی خدمات سرانجام دیں  تاکہ ان کے رشتے دار ناجائز فائدے نہ اٹھا سکیں  اپنے والد یا انکل کے نام پرکروڑوں روپے روزانہ کمانے والے یہ اعتراض اٹھاتے ہیں اگر جج سپریم کورٹ کا جسٹس ہو تو کیا ہوگا تو اس معاملے پر بھی دنیا بھر کی عدلیہ نے اصول وضع کررکھے ہیں وہ یہاں بھی قبل عمل ہیں کہ وہ اپنے انکل یا والد کے سامنے پیش نہ ہو اس پر بھی ترقی یافتہ ممالک نے قانون سازی کی ہے اس سے مدد لی جاسکتی ہے لیکن جو کچھ پاکستان کی عدالتوں میں روزانہ ہوتا ہے وہ پورے ملک کے وکیل جانتے ہیں کہ ججز کے رشتے دار اور بچے کس طریقے سے ان کا نام کیش کرواتے ہیں  ججز کی لاء فرمز بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہیں
یہ صورتحال ملکی سلامتی کیلئے بھی شدید خطرہ ہے کیونکہ اگر جسٹس کا بیٹا کسی بہت بڑے ایسے دہشت گردیا طالبان کے کیس میں کوئی ڈیل کرتا ہے  جیسا کہ عام طور پر ہورہا ہے اسی طرح عدالتوں میں ملکی سلامتی سے متعلق بے شمار معاملات آرہے ہیں جس کی وجہ سے عدلیہ کی اس قسم کی آزادی پورے ملک کی سلامتی کیلئے سنگین خطرہ بن سکتی ہے کیونکہ  عدلیہ تو ایسے معاملے میں بہت زیادہ مجبور ہوتی ہے وہ ایسے وکلاء کو ریلیف دینے پر مجبور ہوتے ہیں جن والد یا انکل جسٹس ہوں کیونکہ انہوں نے کروڑوں روپے فیس پکڑ رکھی ہوتی  ہے  اس قسم کی بداخلاقی کی وجہ سے  عدالتوں میں کرپشن پھیلتی ہے اسٹیک ہولڈرز کو" زبان بند ی "کیلئے خصوصی مراعات دی جاتی ہیں  جس کی وجہ سے ایک عام وکیل کو نقصان ہوتا ہے  کیونکہ اس کے کلائینٹ کے ساتھ کھلم کھلا زیادتی ہوتی ہےاس قسم کے انصاف سے ناانصافی پھیلتی ہے چونکہ یہ معاملہ ملکی سلامتی سے تعلق رکھتا ہے اس لیئے پاکستان آرمی کو بھی اس کا نوٹس لینا چاہیئے 
آزاد عدلیہ قابل احترام ہے لیکن آزاد عدلیہ اپنی آزادی کا احترام کرے ایسے اصول بنائے جس کی وجہ سے اس بداخلاقی کا خاتمہ ہو اگر عدلیہ اپنی آزادی کا ناجائز فائدہ اٹھاتی ہے اور ایسے اصول وضع نہیں کرتی جن کی وجہ سے ججز کو بچوں اور ان کے رشتے داروں کو ناجائز فائدہ اٹھانے سے روکا جاسکے تو میں پارلیمنٹ سے گزارش کرتا ہوں کہ عدلیہ کی آزادی کے اس حصے کو مفلوج کردیا جائے جس کا تعلق    ملکی سلامتی سے ہے  عدلیہ کی آزادی کے اس حصے کو سرجری کی شدید ضرورت ہے   اس لیئے پارلیمنٹ فوری طور ایسے اصول بنائے جس کے ذریعے ججز  پابند ہوجایئں ان سنہری اصولوں کے جن پر عمل درآمد کرکے عدلیہ کے زریعے ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کی جائے جس میں کسی قسم کی ناانصافی نہ ہو لیکن یہ کام آسان نہیں پہلے ہی عرض کیا جاچکا ہے کہ   ایک پورے مافیا کا کروڑوں روپے کا مفاد اس بداخلاقی  سے وابستہ ہے
اس قسم کے"فرشتے " پڑوسی ملک انڈیا میں بھی موجود ہیں 2004 میں پنجاب اور ہریانہ ہایئکورٹ کے چیف جسٹس  بی کے رائےنے اس مافیا سے ٹکر لی تو ان کا اپنا کیا انجام ہوا  ۔اس لیئے پارلیمنٹ کو بھی فرشتوں سے ٹکر لینے کیلئے کافی احتیا ط کی ضرورت ہوگی
In 2004, Justice B.K. Roy, then Chief Justice of the Punjab and Haryana High Court, issued an administrative order barring a group of 10-12 judges from hearing any case argued by their relatives. In his order, Justice Roy said: “It was generally believed that A,B, C and D (all judges) constituted a mutual cooperative society, in the sense it was believed that each of the four judges would protect the sons of the three other judges.” Punjab and Haryana High Court judges protested against this order and proceeded on leave en masse. Justice Roy was subsequently transferred. Since then the order has been ignored.
لیکن انڈیا میں اس معاملے پر کافی بحث ہوچکی ہے اور وہاں پارلیمنٹ میں "جوڈیشل اسٹینڈرڈ اور احتساب بل2009"  کے  زریعے  بداخلاقی کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی پاکستانی پارلیمنٹ کو بھی "جوڈیشل اسٹینڈرڈ اوراحتساب بل کے زریعے پاکستان کی عدالتوں میں جاری فیس ویلیو کے نام پر ہونے والی کرپشن کا خاتمہ کرنے کیلئے اپنا رول ادا کرنا ہوگا یہ اہم ترین معاملہ ہے وکلاء کو اس پر غور کرنا چاہیئے  ہم مکالمے کا راستہ روک نہیں سکتے 2009 میں ہی انڈیا کے لاء کمیشن کی رپورٹ ملاحظہ فرمایئں
“If a person has practiced in a High Court, say, for 20-25 years and is appointed a judge in the same High Court, overnight change is not possible. He has his colleague advocates – both senior and junior – as well as his kith and kin, who had been practicing with him. Even wards of some district judges, elevated to a High Court, are in practice in the same High Court. There are occasions when advocate judges either settle their scores with the advocates who have practiced with them, or have soft corner for them. In any case, this affects their impartiality, and justice is the loser. The equity demands that justice shall not only be done but should also appear to have been done. Judges, whose kith and kin are practicing in a High Court, should not be posted in the same High Court. This will eliminate ‘uncle judges'.”
The commission added:
“Sometimes it appears that this high office is patronized. A person, whose near relation or well-wisher is or had been a judge in the higher courts or is a senior advocate or is a political high-up, stands a better chance of elevation. It is not necessary that such a person must be competent because sometimes even less competent persons are inducted. There is no dearth of such examples. Such persons should not be appointed and at least in the same High Court. If they are posted in other High Courts, it will test their caliber and eminence in the legal field.”
اگرچہ دونوں سفارشات انڈیا کے مخصوص حالات کے پیش نظر پیش کی گئی ہیں لیکن اگر ہم اس کو پاکستان کے حالات کو سامنے  رکھ کر دیکھیں   یہ سفارشات  "بار اور بنچ " نامی استحصالی طبقے کی کمر توڑنے کیلیئے کافی ہیں کیونکہ ہایئکورٹ میں جو جسٹس لائے جاتے ہیں وہ مخصوص چیمبرز سے ان "چیمبرز" اور چند لوگوں کے مفادات کے تحفظ کیلئے لائے جاتے ہیں  وہ انصاف کرنے کیلئے نہیں آتے اگر کراچی کا کوئی جسٹس جس نے کبھی "سب آرڈینیٹ  کورٹ "میں آکر پریکٹس کرنے کی زحمت گوارا نہیں ڈسٹرکٹ کورٹ میں جانا ہی اپنی توہین سمجھا اس کو لاہور بھیجا جاتا ہے اور اس نے سماعت کے دوران  کسی لاہور کے وکیل سے یہ کہہ دیا کہ وکیل صاحب"کاؤنٹر حلف نامہ" کب جمع کروارہے ہیں تو وہاں تو معاملہ کافی خراب ہوجائے گا  وکیل ضمانت کے کیس میں اوپن کورٹ میں ہی ایسا "کاؤنٹر ایفے ڈیوٹ" جمع کروایئں گے  کہ پوری زندگی یاد کرے گا کہ ضمانت کی درخواست میں کاؤنٹر حلف نامہ کیسے جمع کروایا جاتا ہے
اگر ہم مکالمے کی زریعے اس قسم کی سفارشات لانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو  پاکستان میں بار اور بنچ نامی استحصالی طبقے کی کمر ٹوٹ جایئگی اور ایک ایسی عدلیہ سامنے آیئگی جو پاکستان سے ظلم ناانصافی کا خاتمہ کردے گی بار اور بنیچ نامی  استحصالی طبقہ ہی انصاف کی راہ میں اصل رکاوٹ ہے موجودہ عدلیہ جس قسم کا انصاف کررہی ہے  اس پر میں یہی کہوں گا کہ

دیپ جس کا، محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے 
ایسے دستور کو، صبح بے نور کو  

میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا

کیا بھارت کے عوام اور ان کی پارلیمنٹ تنگ نظر ہے؟ جنہوں نے جوڈیشل اسٹینڈرڈ  linkاور احتساب بل کے زریعے عدلیہ کے احتساب کا طریقہ کار طے کردیا

http://www.prsindia.org/uploads/media/Judicial%20Standard/Judicial%20standard%20and%20accountibility%20bill,%202010.pdf


عدلیہ کی  آزادی پر یقین رکھتے ہیں لیکن بداخلاقی پر مبنی آزادی ہمیں قبول نہیں

صفی الدین اعوان

No comments: