Powered By Blogger

Saturday 9 November 2013

جسٹس انور ظہیر جمالی

ان تمام دوستوں سے معذرت جنہوں نے اس معاملے پر لکھنے سے منع کیا لیکن بحثیت ایک پاکستانی میں سمجھتا ہوں کہ آج اگر ہم خاموش رہے تو ہماری آنے والی نسل ہمیں معاف نہیں کرے گی
کاشف سینٹر میں آفس نمبر 1101 کچھ عرصہ پہلے ہی خریدا گیا ہے لوگ کہتے ہیں کہ یہ آفس   سپریم کورٹ کے جسٹس انور ظہیر جمالی نے خریداہے  جوسپریم کورٹ میں دوسرے سینئر ترین  جسٹس ہیں   بات یہاں تک رہتی تو مناسب تھی لیکن اس آفس  کی بھاری اخراجات سے تزیئن و آرائش کی جارہی ہے  اس پر بھی کسی کو کوئی اعتراض نہیں لیکن سنا ہے کہ سپریم کورٹ کے آنے والے  چیف جسٹس یہاں اپنی "لاء فرم" قائم کررہے ہیں  لیکن اس قوم کی بدقسمتی دیکھیں کہ انور ظہیر جمالی صاحب جو سپریم کورٹ کے قابل احترام  جسٹس ہیں وہ اس آفس میں اکثر آکر بیٹھتے ہیں  اگر وہ اپنی لاء فرم چلارہے ہیں تو کیا قانون اس بات کی اجازت دیتا ہے جو آفس براہ راست ایک سپریم کورٹ کے جسٹس کے نام سے منسوب ہو اور جس لاء فرم میں ایک حاضر جسٹس بیٹھتا ہو اور ایسا جسٹس جس نے جنوری 2014 میں چیف جسٹس پاکستان کی حیثیت سے حلف لینا ہو  کونسی نیشنل اور انٹرنیشنل کمپنی اس لاء فرم کو کیسز نہیں دے گی جس لاء فرم کا جسٹس بھی اپنا ہو عدالت بھی اپنی ہو فیصلے بھی گارنٹی سے آتے ہوں کیا وہ لاء فرم کہلانے کی مستحق ہوگی وہ لاء فرم سے زیادہ بکنگ آفس ہوگا جس میں اپنی مرضی کے فیصلے لکھوانے کیلئے صرف کیس بک کیئے جائیں گے آج 9 نومبر 2013بروز ہفتہ  انور ظہیر جمالی صاحب پورا دن  آفس 1101 کاشف سینٹر شاہراہ فیصل نزد ہوٹل مہران میں موجود رہے کیا یہ بات ایک سپریم کورٹ کے جسٹس کے شایان شان ہے؟
کیا آزاد عدلیہ ایسی  کسی پریکٹس کا نام ہے عدلیہ نے اپنی آزادی کا احترام نہیں کیا  سپریم کورٹ اور ہایئکورٹ کے انتہائی قابل احترام فرشتہ نما جسٹس صاحبان  اگر یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی آل اولاد ان کے نام  پر اسی طرح کروڑوں روپے کماتے رہیں گے وہ اپنی لاء فرم قائم کرکے خود ہی کیس بک کریں گے اور پھر خود ہی  بھاری فیس وصول کرکے  طے شدہ فیصلے کریں تو شاید  آنے والا وقت  آپ کو اجازت نہ دے میں پارلیمنٹ سے باقاعدہ طور پر مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ قانون سازی کرے  کہ عدلیہ کوئی ایسا رول منظور نہیں کرسکتی جس سے ان کی لاء فرم اور اولاد کی وکالت کو فائدہ ہو پارلیمنٹ قانون پاس کرے کہ  کسی بھی جسٹس کا بیٹا اس صوبے میں پریکٹس نہیں کرسکے گا جس میں اس کا باپ/ماں جسٹس ہونگے پارلیمنٹ قانون سازی کرے کہ جسٹس صاحب حلف لینے سے پہلے اپنی لاء فرم بند کرنے کا حلف نامہ جمع کروایئں گے اور ان کی لاء فرم کے پارٹنر یا جونیئر ان کے سامنے پیش نہیں ہونگے
لیکن کیا بہتر ہو کہ ہماری عدلیہ کیونکہ آزاد ہے وہ اپنے رولز خود بناتی ہے اس لیئے  اس سے پہلے کہ کہ پارلیمنٹ مداخلت کرے عدلیہ اپنی خود اصلاح کرے مناسب
نہیں لگتا کہ ہرمعاملے میں آرمی مداخلت کرے 
ہوسکتا ہے کہ ہمیں غلط فہمی ہوگئی ہو یہ بھی ممکن ہے کہ  سپریم کورٹ آف پاکستان کے قابل احترام جسٹس انور ظہیر جمالی صاحب نے کاشف سینٹر کے آفس نمبر 1101 میں کوئی مدرسہ بنا رکھا ہو کوئی اصلاحی مرکز بنا رکھا ہو  اگر وہ وضاحت کرنا پسند کریں یا سپریم کورٹ آف پاکستان کے رجسٹرار اس حوالے سے وضاحت کریں گے تو  ہمیں خوشی ہوگی

عدلیہ تارٰیخ کے نازک ترین دور سے گزررہی ہے اس نازک وقت میں وکلاء کی مزید خاموشی مجرمانہ ہوگی 

No comments: