Powered By Blogger

Tuesday 5 November 2013

کیس منیجمنٹ کے نظام پر چند اعتراجات

انتظامی جسٹس کے زیرانتظام کیس منیجمنٹ  کی تجویز جس کے تحت ایم آئی ٹی   نےکورٹ میں پاس ہونے والینے ججمنٹ کا جائزہ لینا تھا پر پورے پاکستان سے ایک اچھا ردعمل سامنے آیا  عدلیہ سے منسلک کئی افراد نے اپنی قیمتی رائے دی جس کا خلاصہ مختصر انداز میں  پیش کیا جارہا ہے ایک ایڈیشنل سیشن جج نے کہا کہ انتظامی جسٹس ہمیشہ ایک مسئلہ رہے ہیں   ایک بار نوٹیفیکیشن جاری ہوگیا کہ جو بھی ضمانت کی درخواست منظور کی جائے گی اس" آرڈر" کی ایک کاپی  جمع کروانی ہوگی ردعمل کے طور پر سب آرڈینیٹ کورٹس نے دھڑا دھڑ ضمانت کی درخواستیں مسترد کرنا شروع کردیں تاکہ آرڈر کی کاپی نہ جمع کروانی پڑے اور ہایئکورٹ میں کام کا ہجوم بڑھ گیا ایک نیا نوٹیفیکیشن نکالا گیا کہ جو ضمانت کی درخواست ریجیکٹ کی جائے اس کی کاپی جمع کروایئں تو سب آرڈینیٹ کورٹس نے وضاحت سے بچنے کیلئے دھڑا دھڑ ضمانت دینا شروع کردی اس لیئے کہ ایم آئی ٹی میں آرڈر کی کاپی نہ جمع کروانی پڑے  اس کی وجہ سے ہرقسم کے لوگوں کو ضمانت ملنا شروع ہوگئی جس سے مزید تباہی پھیلی جرائم پیشہ افراد میں عدالت کا خوف ختم ہوگیا  پھر نوٹیفیکیشن آگیا کہ صرف ڈکیتی کے کیسز میں جو ضمانت کی درخواست منظور کی جائےگی اس کی کاپی ایم آئی ٹی کو بھیج دی جائے تو ردعمل کے طور پر  عدلیہ نے ڈکیتی کے کیسزمیں  ضمانت دینے کا سلسلہ بند کردیا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ افراد مشکلات کا شکار ہوگئے جن کو پولیس نے جھوٹے مقدمات میں ملوث کیا ایک بار نوٹیفیکیشن آگیا کہ کورٹ ٹرائل کے دوران جس کو بھی بری کرے گی اس کی ایک  کاپی سیشن جج کے پاس جمع ہوگی نہ ہم نے کسی کو ٹرائل کے دوران بری کیا نہ ہمیں وضاحتیں دینے کا کوئی شوق تھا  جس سے نقصان لوگوں کو ہی ہوا پھر ایک آزادی دی گئی کہ کیس ختم کرو تو ہم نے دھڑا دھڑ کیس ختم کرنا شروع کردیئے  اس پر رشوت کے الزام سامنے آنا شروع ہوگئے ایک بار نوٹیفیکیشن جاری ہوگیا کہ قیامت کی ایک اہم نشانی کو پورا کیا جائے یعنی منصف خود چل کر جرائم پیشہ افراد کے سامنے پیش ہوں اور وہاں جیل میں قیدیوں کے سامنے پیشی لگا کرجیل سے ملزمان کو چھوڑا جائے اب بے چارے منصف فائلوں کا بستہ بغل میں دابے جیل پہنچ گئے اور جیل خالی کرو مہم کا آغاز شروع کردیا   نتیجہ یہ نکلا کہ جب منصفوں نے اعلی عدلیہ کے کہنے پر قیامت کی اس نشانی کو بھی پورا کردیا  اور قابل احترام ججز قیدیوں کے سامنے خود پیش ہوگئے تو وکیل بپھر گئے کہ یہ کیا ڈرامہ ہے   ساری زمہ داری ماتحت عدلیہ کے ججز پر آگئی اسے کہتے ہیں " کرے کون بھرے کون " جس کے بعد ججز کی جیل میں پیشی کا سلسلہ بند ہوابدقسمتی سے ہایئکورٹ میں جو جسٹس موجود ہیں وہ خود مطلوبہ اہلیت نہیں رکھتے جس کی وجہ سے کریمنل جسٹس سسٹم کی سمجھ ان کو نہیں ہے جسٹس بنانے کے ایک اہم فارمولے جس کے تحت  50٪ پچاس فیصد جج سب آرڈینیٹ کورٹس سے اور باقی 50٪ پچاس فیصد سب آرڈینیٹ کورٹس کے وکلاء سے لیئے جایئں گے کو نظر انداز کیا گیا  ایک اہم معاملہ یہ رہا کہ سب آرڈینیٹ کورٹس کا وقار ختم کیا گیا  ڈسٹرکٹ کورٹس کو دنیا بھر میں انسٹی ٹیوشن کا درجہ حاصل ہے قانون کی وہ الجھنیں جو دنیا کی کوئی یونیورسٹی نہیں سکھا سکتی وہ ڈسٹرکٹ کورٹس کی پریکٹس سکھاتی ہے ڈسٹرکٹ کورٹ کی پریکٹس کے بغیر کوئی  بھی وکیل وکالت کو سمجھ ہی نہیں سکتا لیکن بدقسمتی سےآج ایک طبقہ وکلاء میں ایسا بھی پیدا ہوگیا  ہےجو نخوت سے کہتا ہے کہ ہم ڈسڑکٹ کورٹس کا کیس نہیں لیں گے ہم سٹی کورٹ آنا توہین سمجھتے ہیں سب سے بڑھ کر یہ کہ گزشتہ دنوں زبانی طور پر ایک مضحکہ خیز پیغام عدلیہ کی جانب سے  ڈسٹرکٹ کورٹ کے ججز کودیا گیا کہ آج کل بار کے الیکشن ہیں توان دنوں وکلاء سے نہ الجھیں  نہ ہی کوئی تکرارکریں کیونکہ انتخابات کے دوران امیدوار اور ان کے حامی اپنی کارکردگی دکھانے کیلئے کورٹ پر حملہ آور ہوجاتے ہیں  یاکورٹس  کو اپنے دباؤ میں رکھتے ہیں  جس سے ایک بدتر ماحول کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے  آج تک ہایئکورٹ کی جانب سے جو بھی اقدامات کیئے گئے ان اقدامات کا ہمیشہ نتیجہ الٹ ہی نکلا ہے  ہایئکورٹ کے ججز کی  کی تعیناتی پربار کے عہدیدار  پریس کانفرنس کرکےسوالات اٹھائے جاچکے ہیں جب ان کا اپنا میرٹ ہی مشکوک ہے تو وہ کیسے میرٹ کا نفاذ کریں گے سب آرڈینیٹ عدلیہ کا کہنا یہ ہے کہ انتظامی جج کون ہوگا؟ ہر جج کا اپنا  ذہن ہے اگر ان کا ذہن سزا دینے والا ہے تو ان کو بریت کا ہر حکم مشکوک محسوس ہوگا اگر ریلیف مایئنڈ  ہے تو سزا کا ہر حکم مشکوک محسوس ہوگا ججز کا کہنا تھا کہ اس پر ان کے تحفظات ہیں
سب آرڈینیٹ کورٹس کے بعض ججز کے اعتراضات پر ہم صرف یہ کہیں گے کہ   جن انتظامی اختیارات کے حامل ججز نے  ماضی میں اس قسم کی اضافی خدمات دی ہیں وہ کام کے دباؤ کی وجہ سے اپنا کام سرانجام نہیں دے سکے کیونکہ انتظامی جسٹس ہونا ایک اضافی ذمہ داری تھی اس لیئے  ہماری  تجویز یہ تھی  ہایئکورٹ کا ایک جج صرف انتظامی نوعیت کے اختیارات اپنے پاس رکھے وہ کورٹ نہ چلائے بلکہ ایم آئی ٹی کے زریعے کرپشن کو کنٹرول کرے ویسے بھی  بعض ججمنٹ اس نوعیت کی ہوتی ہیں جن کو پڑھ کر شکوک شبہات پیدا ہوتے ہیں ڈسٹرکٹ کورٹ کی روایت رہی ہے کہ چیک باؤنس کے مقدمات میں تین لاکھ روپے کا چیک دینے والے ملزم کو جیل بھیجا گیا اور 65 کروڑ کا چیک دینے والے کی ضمانت منظور کی گئی ایک ہی عدالت  دوقسم کے فیصلے کرتی ہے ایک فیصلہ عام وکیل کے لیئے ایک فیصلہ خاص آدمی کیلئے  جس کی وجہ سے شکوک تو لازمی پیدا ہوتے ہیں  ایک ہی نوعیت کے مقدمات میں ایک ہی جج کی جانب سے مختلف نوعیت کے فیصلے عدلیہ کا وقار مشکوک کرتے ہیں  جب انتظامی جج کورٹ نہیں چلائے گا صرف ایم آئی ٹی کے زریعے کرپشن کو کنٹرول کرے گا اور ایک انتظامی افسر کے زریعے کورٹ کے اسٹاف کی کرپشن کو کنٹرول کرے گا  تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ تبدیلی آئے گی
ان تمام وکلاء اور ججز کے شکرگزار ہیں جنہوں نے اپنی رائے اور تجاویز سے نوازا

صفی الدین اعوان


No comments: