Powered By Blogger

Sunday 17 November 2013

غیر قانونی حراست کے خاتمے کیلئے عدلیہ کا کردار اور شہریوں کی توقعات :تحریر صفی الدین اعوان

جن ممالک میں قانون کی بالادستی نہ ہو وہاں کے شہری اکثر خفیہ ایجنسیاں لاپتہ کردیتی ہیں  شہریوں کی گمشدگی سے نفرت جنم لیتی ہیں  بعض اوقات جب ملک داخلی بحران کا شکار ہو اور ادارے ناکام ہوجایئں تو ملک دشمن عناصر کو مداخلت کا موقع ملتا ہے۔خفیہ ایجنسیاں حرکت میں آتی ہیں اور ایسے شہریوں کو غائب کردیتی ہیں  جو غیر ملکیوں سے رابطے میں ہوتے ہیں  خفیہ ایجنسیاں مختلف وجوہات کی بنیاد پر شہریوں کو غائب کرتی ہیں  اکثر اوقات لاپتہ افراد کو قتل کردیا جاتا ہے  عدلیہ ،انتظامیہ اور مقننہ کبھی بھی شہریوں کی گمشدگی کی حمایت نہیں کرتے یہ ادارے اپنے ملک کے شہریوں کی حفاظت کیلئے ہرممکن قدم اٹھاتے ہیں  لیکن  امریکہ سمیت بہت سے ممالک میں خفیہ ایجنسیاں ایک متوازی حکومت چلانے کی کوشش کرتی ہیں  خاص طور پر عرب ممالک میں خفیہ ایجنسیاں جس کو جب چاہیں غائب کردیں

پاکستان کے بے شمار سنگین مسائل میں سے ایک مسئلہ "مسنگ پرسنز" کا ہے میں نے ایک درجن سے زائد ایسے لوگوں سے ملاقات کی  ان کے ہاتھ صاف نہ تھے لیکن ایجنسیوں کی جانب سے ان کو لاپتہ کردینا غیر آئینی تھا لاپتہ افراد میں سے ایک فرد میرے آبائی گاؤں سے تعلق رکھتا تھا وہ پیشے کے اعتبار سے ایک ڈرائیور تھا لیکن اچانک اس کے پاس بے حساب دولت آگئی  اور اس کے زیرانتظام ٹرانسپورٹ کمپنی اثاثہ جات کے لحاظ سے ان کمپنیوں سے آگے نکل گئی جو قیام پاکستان سے پہلے کام کررہی تھیں پھر اچانک اس کو غائب کردیا گیا اس کا والد میرے پاس قانونی مشورے کیلئے آیا تو گھر واپسی پر ہی اس کو کال آگئی کہ اگر بیٹے کو تلاش کروگے تو  اس کو ماردیں گے جس کے بعد اس نے  صبر کیا اور ایک سال بعد وہ لاپتہ شخص واپس آگیا اس حال میں کہ اہل خانہ نے بھی نہیں پہچانا اس نے عبرت ناک واقعات سنائے لیکن اس کی خفیہ دولت آج تک ایک راز ہے 
گمشدہ افراد کی ایک قسم سابقہ مجاہدین کی تھی جن پر مشرف دور میں گمشدگی کے بعد کلاشنکوف اور بم وغیرہ رکھ کر مقدمے بنادیئے جاتے تھے جس کے بعد وہ کورٹ کے مقدمے بھگت کر خود ہی ٹھنڈے ہوجاتے تھے
جولوگ لاپتہ ہوجاتے ہیں ان کے اہل خانہ تو جیتے جی ہی مرجاتے ہیں آپ ایسے انسان کی بےقراری اور بے بسی کو برداشت نہیں کرسکتے جس کا کوئی پیارا لاپتہ کردیا گیا ہو۔جس ریاست میں شہریوں کو لاپتہ کردیا جاتا ہو وہ ریاست زیادہ عرصہ مستحکم نہیں رہ سکتی  کیونکہ وہاں آئینی ادارے ناکام ہورہے ہوتے ہیں آئینی اداروں کی ناکامی سے ریاست انتشار کا شکار ہوتی ہے
چیف جسٹس آف پاکستان اکثر انتظار کرتے رہ جاتے ہیں اور خفیہ ایجنسیوں کے سربراہان پیش نہیں ہوتے  عدلیہ کوشش کرتی رہتی ہے  اور اکثر اوقات شہری گھر واپس آجاتے ہیں لیکن یہ مسئلے کا عارضی حل ہے

عدلیہ چاہے تو اس کا مستقل حل تلاش کرسکتی ہے کیونکہ مسنگ پرسن کے مسئلے کا مستقل حل صرف اور صرف عدلیہ کے پاس ہے آئین پاکستان  نے صرف عدلیہ کو یہ اجازت دی کہ وہ اس مسئلے کو حل کرے آئین پاکستان  کے مطابق عدالت کسی بھی شخص کے جسم کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے سکتی ہے "زندہ یا مردہ" ہر صورت  ہر قیمت پر ریاست کے مطلوبہ شہری کو عدالت کے سامنے پیش کرنے کا حکم اس حکم کی حکمت کے پیچھے عدلیہ کی صدیوں پرانی تاریخ ہے دنیا بھر کی عدالتوں کو یہ حق صدیوں کی جدوجہد کے بعد ملا ہے اب اس حق کو دور جدید کے تقاضوں سے کس طرح ہم آہنگ کرنا ہے  یہ دنیا بھر کی عدالتوں نے اپنے طور پر طے کیا ہے افتخار محمد چوہدری  چیف جسٹس آف پاکستان کے پاس ایک اچھا موقع تھا  وہ عدلیہ کی اس طاقت کو دورجدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرسکتے تھے شہریوں کو ایجنسیوں کی جانب سے عذاب میں مبتلا کرنے کے خلاف وہ ایک بہت بڑا قدم اٹھا سکتے تھے کوئی انسانی جسم زندہ حالت میں غائب کردینا آسان کام نہیں ہوتا ۔ اللہ کی خاص حکمت ہے کہ سب سے مشکل کام کسی انسان کو انسانی آنکھ سے اوجھل کرنا ہے لیکن ایسی صورت میں جب عدلیہ دی گئی طاقت کو استعمال نہ کررہی ہو جب اس طاقت کے استعمال کا طریقہ کار ہی پیچیدہ ہو کسی بھی  شہری کو غیرقانونی حراست سے محفوظ رکھنے کیلئے عدلیہ کو جو طاقت حاصل ہے وہ صدیوں کی جدوجہد کا نتیجہ ہے  یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کی عدالتیں خفیہ ایجنسیوں کی آنکھ میں خار کی طرح کھٹکتی ہیں  اور جب انتظامیہ بھی اس معاملے میں ملوث ہوتو بھی عدلیہ ہی شہریوں کی حفاظت کیلئے اقدامات اٹھاتی ہے یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کی حکومتیں عدلیہ سے خوفزدہ رہتی ہیں
مارشل لاء کی وجہ سے عدلیہ کو بار بار حکمرانوں نے استعمال کیا اور عدلیہ استعمال ہوتی رہی لیکن موجودہ عدلیہ نے پہلی بار  مکمل آزادی کا دعوی کیا ہے اگرچہ چیف صاحب کے اقدامات سے خفیہ ایجنسیوں نے شہریوں کو رہا کیا ہے  لیکن پاکستان میں مشرف دور میں ماڈل کورٹس کا تجربہ کامیاب رہا تھا جس کے مطابق کم سے کم وقت میں عدالتی بیلف یا مجسٹریٹ خفیہ اداروں تک پہنچ کر شہریوں کو ایجنسیوں کی قید سے رہائی دلاتے تھے  اور یہ بات تاریخ کا حصہ ہے کہ ہمارے ایک سیشن جج  جو ایک کانفرنس میں امریکہ گئے تھے جب ان کو ای میل کے زریعے  غیرقانونی حراست کی شکایت ملی تو امریکہ سے ہی بذریعہ ای میل بیلف مقرر کیا جس نے تھانے سے رات کو 2 بجے ایک شہری کو غیرقانونی حراست سے نجات دلائی یہ ہوتی ہے عدالت یہ ہوتا ہے عدلیہ کی طاقت لیکن افسوسناک طور پر مشرف دور ہی میں اس پر کام روک دیا گیا یا رکوادیا گیا جو بھی ہوا لیکن شہری محروم ہوگئے عدلیہ کی اس طاقت سے جو عدالتوں نے صدیوں کی جدوجہد سے حاصل کی اور آج تک محروم ہیں   اگر محترم افتخار محمدچوہدری   توجہ کرتے یا ان کی اپنی گرفت کریمینل جسٹس سسٹم پر مضبوط ہوتی تو وہ پاکستان کو ایک ایسا سسٹم دے سکتے تھے جو کم سے کم وقت میں کسی بھی بے گناہ انسان کو پولیس یا خفیہ ایجنسیوں کے حراستی مراکز سے نجات دلا سکتے تھے آئین پاکستان صرف عدالت کو اختیار دیتا ہے کہ وہ کسی بھی خفیہ ادارے اور پولیس سے جاکر پوچھے کہ جس شخص کو گرفتار کیا گیا ہے اس پر کیا الزام ہے کیا اس کی گرفتاری ظاہر کی گئی ہے
لاء سوسائٹی پاکستان اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ کسی بھی خفیہ ادارے یا پولیس کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ اس کو حب الوطنی کا سرٹیفیکیٹ جاری کرے کسی بھی شخص کو گرفتار کرکے قانون کے مطابق اس کی گرفتاری کو فوراً ہی ظاہر کرے گرفتاری میں 
ایک منٹ کی تاخیر بھی غیرقانونی اور غیر آئینی ہے

صرف غیر قانونی حراست اور لاپتہ افراد ہی کے مسئلے کی وجہ سے ہمارا ایک صوبہ نفرت کی آگ میں جل رہا ہے او ر وہاں علیحدگی کی باتیں ہورہی ہیں ایجنسیوں کی بریفنگس اور دلائل اس لیئے بے معنی ہیں کیونکہ اگر ان کے دلائل کو مان لیا جائے تو پھر آیئن کا کیا کریں گے لیکن میری ذاتی رائے یہ ہے کہ محترم افتخار محمد چوہدری صاحب سے اس معاملے پر غفلت ہوئی ہے اگر وہ چاہتے تو اس حوالے سے شہریوں کو ایسا طریقہ کار دے سکتے تھے  جس کے زریعے وہ چوبیس گھنٹے غیر قانونی حراست سے تحفظ کیلئے  عدالت کا دروازہ بجا سکتے تھے   افسوس آپ ایسا نہ کرسکےمحترم افتخار محمد چوہدری کے جانے کے بعد عدلیہ  اندرونی محاز آرائی کے خدشے سے دوچار ہے  عدلیہ کی اندرونی محاذ آرائی سے پاکستان میں انسانی حقوق کی تحریکوں کو نقصان ہوگا اور خفیہ ایجنسیوں کی طاقت میں مزید اضافہ ہوگا غیر قانونی حراست جو کہ آج بھی عروج پر ہے مزید اضافہ ہونے کا
خدشہ ہے

اس تحریر کے مصنف صفی الدین اعوان ہیں جو گزشتہ سات سال سے پاکستان میں عدالتی اصلاحات کیلئے سرگرم عمل ہیں)

No comments: