Powered By Blogger

Tuesday 5 November 2013

ہم کیسی عدلیہ چاہتے ہیں؟ ایک تصوراتی جائزہ جس سے اختلاف ممکن ہے

15 مارچ 2015
انتظامی امور کے لیئے مقرر کیئے گئے جسٹس نے اپنے سامنے موجود چند فائلوں کو ایڈیشنل سیشن جج  کے سامنے رکھا اور کہا کہ یہ  آپ کی عدالت کی چند فائلیں  ہیں  جو ایم آئی ٹی نے گزشتہ چھ ماہ کے دوران   منتخب کی ہیں آپ کی چند ججمنٹس میں سخت ابہام پایا جاتا ہے اور آپ نے ضمانت کی چند درخواستوں پر مشکوک احکامات جاری کیئے ہیں
ایک قتل کے اہم مقدمے میں چشم دید گواہوں کی موجودگی کے باوجود آپ نے ملزم کو غیر قانونی طور پر ضمانت کا ریلیف دیا اس کے لیئے آپ نے کاؤنٹر کیس کا سہارا لیا
ایڈیشنل سیشن جج نے لاپروائی سے کہا  اگر اس کیس میں ملزمان کے وکیل کا وکالت نامہ دیکھ لیں تو سارا مسئلہ آپ کی سمجھ میں آجائے گا
انتظامی اختیارات کے حامل جسٹس نے کہا مجھے وکالت نامے سے کیا مطلب   چند نکات کی ایم آئی ٹی نے نشاندہی کی تھی اس کی  وضاحت  تو آپ کو کرنی ہوگی
جناب والا یہی تو عرض کررہاہوں کہ وکالت نامہ بار کے صدر کا ہے
جسٹس : کیا ہوا بار کے صدر کے وکالت نامہ ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے
 ایڈیشنل سیشن جج: فرق پڑتا ہے بار اور بینچ کے تعلقات خوشگوار ہونے چاہیئں بار اور بینچ ایک ہی گاڑی کے دو پہیئے ہیں دوسری بات یہ کہ اگر صدر کو خصوصی ریلیف نہیں ملے گا تو بہانہ بنا کر ہڑتال کرے گا  ہمیں پریشان کرے گا پریس کانفرنس کرے گا
جسٹس: مسٹر آپ کسی گندے انسان سے مخاطب نہیں ہیں میں کوئی ایسا ویسا جسٹس نہیں ہم پر بار سمیت کوئی ادارہ انگلی نہیں اٹھا سکتا ہم نے سب سے پہلے اپنی اصلاح کی ہے اپنی سوشل لائف محدود کردی ہے جو کہ آسان نہ تھا لوگوں کو اعتراض تھا کہ  ہمارے بچے ہماری عدالتوں میں نہ صرف پریکٹس کرتے ہیں بلکہ  اپنے باپ اور ان کے دوستوں کی عدالتوں سے خصوصی ریلیف بھی حاصل کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ ماہانہ کروڑوں روپے کماتے تھے   ہم نے سب سے پہلے 1947 سے پہلے کہ اس رول کو بحال کیا ہمارے بچے اب ہماری عدالتوں میں پیش نہیں ہوتے ہیں  بات کرنا بہت آسان ہے لیکن اپنا کروڑوں روپے کا مفاد ختم کرنا آسان نہیں ہوتا عدالتی اصلاحات  کے بعد چند جسٹس حضرات کے بیٹے دوسرے صوبے میں جبکہ چند بچے بیرون ملک اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوارہے ہیں۔ہم نے اپنی لاء فرم کے نام تبدیل کرنے کی بجائے ان کو ختم ہی کردیا ہے  تاکہ لوگ ہم پر انگلی نہ اٹھا سکیں نہ ہم کسی کو انگلی اٹھانے کی اجازت دیں گے ہم نے سب سے پہلے اپنے گھر  کی صفائی کی ہے اب ہم نے جسٹس بھی میرٹ پر تعینات کیئے ہیں اب چیمبر کی بنیاد پر سفارشی تعینات نہیں کیئے جاتے ہیں ججز میں خود بھی احساس ذمہ داری پیدا ہوگیا اپنے دوستوں ،جونئیرز اور رشتہ داروں کے کیس نہیں سنتے  اب بار کے قریبی رشتے کی ہمیں ضرورت ہی نہیں رہی وکلاء کے جو مسائل عدلیہ سے متعلق ہوتے ہیں اس کے لیئے الگ فورم موجود ہے جہاں پر وہ معاملات حل ہوتے ہیں میں فخر سے کہتا ہوں کہ آج عدلیہ میں ایسے گندے لوگ موجود نہیں جو اپنی غلطیوں کی وجہ سے بلیک میل ہوتے تھے  ہمارا کوئی مفاد عدلیہ سے وابستہ نہیں ہے نہ ہمیں بار کے صدر سے کوئی مطلب ہے نہ ہمیں بار کے الیکشن سے کوئی غرض   ہے بار ہماری غلطیوں کی نشاندہی ضرور کرتی ہے لیکن  اصلاح کی نیت سے نہ کہ بلیک میلنگ کی نیت سے
سیشن جج: لاپرواہی سے لیکن ضمانت تو ہمارا صوابدیدی اختیار ہے  
جسٹس : صوابدیدی اختیار آپ بادشاہ کی طرح کس طرح استعما ل کرسکتے ہیں اگر ایسی بات ہوتی تو ضمانت کے اصول وضع کرنے کی  کیا ضرورت تھی آپ نے قتل کے جن ملزمان کو ضمانت دی وہ شواہد کی بنیاد پر ضمانت کے مستحق نہ تھے  بلکہ اصول کے مطابق تو ان کی ضمانت سپریم کورٹ تک نہیں ہونی تھی اور جس کاؤنٹر ایف آئی آر کا آپ نے سہارا لیا وہ ایف آئی آر ہی جھوٹی ثابت ہوئی ہے دوسری طرف آپ نے  لڑائی جھگڑے کے معمولی مقدمات میں تاخیر کے  بعد ضمانت کی درخواستیں مسترد کی ہیں اور مسترد کرنے سے پہلے آپ نے درخواست دوماہ تک التواء کا شکار بھی رکھی ہے
 ایڈیشنل سیشن جج: یہاں تو ہمیشہ ہی ایسا ہوتا رہا ہے میں نے کونسا نیا کام کیا ہے جبکہ وہ عام سے وکیل تھے ان کا کوئی بیک گراؤنڈ ہی نہیں تھا  اس لیئے ان کو طریقہ کار کا بھی پتہ نہیں تھا ان کے کیسز میں پولیس فائل ہی نہیں آتی تھی تو ان کے مقدمات کی سماعت کیسے ہوتی
جسٹس: پولیس فائل لانا کس کا کام ہے  کیا یہ میرا کام ہے یا وکیل کا؟
 ایڈیشنل سیشن جج: سر آپ کو پتا نہیں کہ پولیس فائل کیسے کورٹ میں آتی ہے جب تک وکیل کورٹ محرر یا تفتیشی افسر سے ساز باز نہیں کرتا پولیس فائل کورٹ میں نہیں آتی
جسٹس: تو آپ کا کام کیا ہے آپ جس سیٹ پر بیٹھے ہیں کیا وہ ایک بے بس انسان کی سیٹ ہے  آپ کے پاس پھانسی  کی سزا دینے کا  اختیار ہے اور معمولی تفتیشی افسر اور کورٹ محرر آپ کے قابو نہیں آتے تو آپ اس عہدے کے اہل ہی نہیں ہیں دوسری طرف آپ بھی چند مخصوص قسم کے وکلاء  جو یا تو آپ کے دوست ہیں یا پھر ان کا آپ سے کوئی اور تعلق ہےکو کم سے کم وقت یا فوری ریلیف دے دیتے ہیں  دوسری طرف ایک عام وکیل کے کیس کی طرف آپ کی توجہ ہی نہیں ہوتی اور  محسوس یہ ہوتا ہے کہ آپ جان بوجھ کر ان کو تنگ کرتے ہیں ریکارڈ یہ بھی ثابت کررہا ہے کہ آپ کی عدالت میں چند مخصوص لوگوں کو ہی ریلیف ملتا ہے اور اس کی نوعیت غیرقانونی ہے ان لوگوں کے مقدمات میں جو ججمنٹ آتی ہیں ان میں ابہام ہوتا ہے ہایئکورٹ نے آپ کی عدالت کی ججمنٹس پر کئی بار اسٹرٍکچر پاس کی ہیں جو کہ آپ کے ریکارڈ کا حصہ ہیں آپ کو ماضی میں  ناتجربہ کاری کی بنیاد پر ٹریننگ بھی دی جاچکی ہے  کیس منیجمنٹ کے جدید نظام کی وجہ سے اب کسی بھی جج کا ناانصافی پر مبنی فیصلہ  سسٹم کی آنکھ سے اوجھل نہیں رہ سکتا کیونکہ ایم آئی ٹی مستقل بنیاد پر فیصلہ جات کا از خود مطالعہ کرتی ہے اور اپیل کے دوران ہایئکورٹ کی جانب سے سب آرڈینیٹ کورٹس کے فیصلہ جات پر پاس کیئے گئے اسٹرٍٍکچر کسی بھی بدعنوان جج کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دینے کیلئے کافی  ہوتے ہیں  ایم آئی ٹی کو مستقل  بنیادوں پر ایک انتظامی جسٹس دیکھتا ہے اور اس کا صرف ایک ہی کام ہے عدلیہ سے کرپشن کا خاتمہ  اور کارکردگی کی بنیاد پر ججز کی پروموشن اب ایک ایسی عدلیہ موجود ہے جس میں ججز کو کارکردگی کی بنیاد پر پروموشن مل رہی ہے  اب داماد ،رشتے دار اور دوستی کی بنیاد پر پروموشن نہیں ہوتی نہ ہی بار سمیت کوئی ادارہ ہمیں پروموشن کیلئے ڈکٹیشن دے سکتا ہے
آپ کی ججمنٹ ظاہر کرتی ہیں کہ آپ نے انصاف پر مبنی فیصلے نہیں کیئے اور آپ کے پاس اپنے دفاع میں کہنے کیلئے کچھ بھی نہیں ہے اس لیئے آپ کو ڈسمس کیا جاتا ہے عدلیہ نے آپ کو عزت دی آپ کو آپ معاشرے میں اچھا مقام رکھتے تھے لیکن افسوس آپ نے قدر نہیں کی
ایڈیشنل سیشن جج :کیا میں استعفی دے کر  وکالت کے شعبے کو جوائن کرسکتا ہوں
جسٹس: قطعاً نہیں ہم آپ کو وکالت کے شعبے کو گندا کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے وہ بھی آپ کو اب قبول نہیں کریں
ہم نے کوشش کی کہ اصلاحات کے بعد کی عدلیہ کا ایک مختصر خاکہ آپ کے سامنے پیش کریں ابھی یہ ساری بحث زیر غور ہے اس قسم کی اصلاحات ایک عام وکیل  کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں جب تک عدلیہ پر وکلاء کی طرف سے پریشر نہیں آئے گا حقیقی عدلیہ ایک خواب ہی رہے گی



صفی الدین اعوان لاء سوسائٹی پاکستان کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں اور گزشتہ سات سال سے پاکستان میں عدالتی اصلاحات اور عدلیہ کو دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کیلئے سرگرم عمل ہیں

No comments: