Powered By Blogger

Friday 8 November 2013

اہم عہدوں پر بیوی، بیٹوں ، بھتیجوں اوربھانجوں کی تعیناتیاں کب تک چلیں گی؟




          چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری نے آج ایک معنی خیز بیان دیا ہے ذرائع کے مطابق چیف صاحب نے نیپرا کے کیس کے دوران اپنے دائیں بائیں بیٹھے فرشتوں کو خوب کھری کھری سنایئں چیف کا اصل حدف وہ فرشتے تھے جنہوں نے اپنی بیوی بیٹے بھانجے اور داماد اقرباء پروری کے زریعے عدلیہ میں اہم پوسٹوں پر لگائے تھے چیف صاحب کا پورا بیان پڑھیں تو اصل بات سمجھ آجائے گی
چیف صاحب نے سخت مایوسی کے عالم میں    کہا ہے کہ عدلیہ سمیت سرکاری اداروں کے اہم عہدوں پر بیٹوں ، بھتیجوں اوربھانجوں کی تعیناتیاں کب تک چلیں گی؟،سینئرز کو باہر بٹھا کر جونیئر افسروں کو سیکرٹری لگایا ہوا ہے یہ اشارہ عدلیہ میں حالیہ پروموشنز پر تھا  چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ حکومت کو فری ہینڈ ملک میں شفافیت لانے اور میرٹ پر فیصلے کرنے کے لیے دیا ہے بصورت دیگر عدالت کے پاس اور بھی آپشنز ہیں ،حکومت سارے ملک کو ایڈہاک ازم پر چلا رہی ہے ، کل کو کیا سپریم کورٹ میں بھی قائم مقام چیف جسٹس کی تعیناتی ہوگی؟ ہر ادارے کا سربراہ قائم مقام ہونا ایک انکشاف سے کم نہیں ، اگر سارے کام عدالتوں کو کرنے ہیں تو پھر حکومت کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟ ہر مقدمے میں خواجہ آصف کا حوالہ دینا ہے تو پھر اس پر نظر ثانی کرکے فیصلہ ہی ختم کردیتے ہیں ، پسند ناپسند کا کلچر اب ختم ہونا چاہیے عدم مساوات ختم ہوگی تو اقربا پروری ختم ہوگی ، حکومت کا ساتھ دینے والے جونیئرز کو ترقی مل گئی، سینئرز آج بھی انتظار کی لائن میں ہیں ، ایڈہاک ازم سے حکومت بدنام ہوگی ، ادارے سب اچھے ہیں اور قانون بھی کاش اس پر عملدرآمد بھی اچھا ہی ہوجاتا تو بہتر ہوتا ، فلاحی ریاست کا مقصد یہ نہیں کہ حکومت میں آتے ہی اپنے من پسند افراد کو نوازنا شروع کردیا جائے حکومت کو سمجھائیں کہ کل ان کے لیے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں، ایماندار ، فرض شناس اور اپنے اندر رہنما کی خصوصیات رکھنے والے افراد کو تعینات کیا جاسکتا ہے ،چیئرمین نیب اور وفاقی محتسب بھی کسی قابل شخص کو مقرر کیا جاسکتا ہے، آئین و قانون میں کوئی سقم ہے تو اس میں ترمیم کرکے درست کیا جاسکتا ہے ، عدالتی احکامات پر عمل نہ ہوا تو جوڈیشل آرڈر جاری کرینگے جبکہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے کہ حکومت کچھ کرتی نہیں اور سارے الزامات عدالتوں پر لگا دیئے جاتے ہیں ملک میں اقربا پروری کی روایت ختم ہونی چاہیے، حکومت چنائو والا کام نہ کرے۔ انہوں نے یہ ریمارکس جمعرات کے روز بجلی کی لوڈ شیڈنگ کیس کی سماعت کے دوران دیئے جس کی سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سارے ملک کو قائم مقام چیئرمین سے چلایا جارہا ہے (خصوصاً سندھ میں کئی قائمقام سیشن ججز بھی اسی سلسلے کی کڑی ہیں) ایڈہاک سسٹم ختم کریں پی ٹی اے کیس میں بھی قائم مقام کی کوئی گنجائش نہیں ہے ضرغام نے بتایا کہ انٹرویوز ہورہے ہیں فی الحال قائم مقام چیئرمین کام کررہے ہیں ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ پیمرا میں چیئرمین کا معاملہ ایکٹنگ ، پی آئی اے چیئرمین اور اب نیپرا چیئرمین بھی قائم مقام چیئرمین کام کررہا ہے یہ کام نہیں چلے گا قواعد و ضوابط میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے جس کو پتہ ہی نہیں کہ وہ کل ہوگا یا نہیں بڑے فیصلے کیسے ہوں گے ۔چیف جسٹس نے کہا کہ اگر خواجہ آصف کا کیس ہی ہمارے گلے میں ڈالنا ہے تو اس پر نظر ثانی کرلیتے ہیں،ہم نے تو فقط شفافیت لانے کی بات کی تھی ہم نے تو شفاف لوگوں کو تعینات کرنے کے لیے کہا تھا اقربا پروری ختم ہوسکے عدالت نے کوئی غلط کام نہیں کیا ہم تو قابل آدمی چاہتے تھے۔چیف جسٹس نے کہا کہ جب عدالت کا حکم آگیا اس پر عمل کیا جانا چاہیے آپ کے ملک میں کوئی نیا تجربہ نہیں ہورہا۔جسٹس جواد نے کہا کہ اب اس ملک میں اقربا پروری کی ریت بھی ختم ہونی چاہیے شروع میں مشکلات ضرور ہوں گی۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو بورڈ سے ہی کسی کو تعینات کرنا تھا سول ایوی ایشن اتھارٹی میں کسی کو تعینات کیا گیا وہاں بھی عدالتی فیصلے کا خیال نہیں رکھا گیا ۔ ملک میں قابل لوگوں کی کمی نہیں ہوگئی چاروں صوبوں سے اچھے لوگ لئے جاسکتے ہیں یہ ضروری نہیں کہ جو آپ کے زیر سایہ ہیں ان کو اچھے عہدوں پر لگا دیا جائے ۔ میرٹ پر جس کو مرضی لے کر آئیں ہر گلی میں لائق لوگ موجود ہیں چیئرمین نیب ، وفاقی محتسب کے طور پر کسی بھی قابل شخص کو مقرر کیا جاسکتا ہے ہم نے موجودہ حکومت کو فری ہینڈ شفافیت کیلئے دیا ہے سیکڑوں درخواستیں کسی بھی پوسٹ کے لیے آنا ملک میں ٹیلنٹ ہونے کی گواہ ہیں فیڈرل سروسز ٹربیونل کے لیے سب نے قوانین بنا لئے ہیں لیکن وفاقی حکومت نے ابھی تک قوانین نہیں بنائے یہ ٹربیونلز بند ہیں۔مزید سماعت آج(جمعہ) کو ہوگی۔
 ذرائع نے چیف کے سارے ارشادات کو اہم قرار دیا ہے محسوس ہوتا ہے کہ عدلیہ کی اپنی اقرباء پروری کے معاملات ایک دھماکے سے پھٹنے والے ہیں

No comments: