اخلاقیات یہ ہے
کہ 7مئی 1997 میں انڈیا کی سپریم کورٹ کے
قابل احترام جسٹس صاحبان نے فل کورٹ میٹنگ کے زریعے اپنے اثاثے سپریم کورٹ آف
انڈیا کی ویب سائٹ پر ظاہر کرنے کا اعلان
کیا وہ ہر سال 30 جولائی کو اپنے اثاثوں کی تفصیلات جمع کرواتے تھے جو پبلک کیلئے ویب سائٹ پر موجود ہوتے تھے لنک ملاحظہ فرمایئں
لیکن میری معلومات کے مطابق ہایئکورٹ کے ججز اثاثے ظاہر
کرنے کے قانونی پابند نہ تھے لیکن وہ بھی فل کورٹ
میٹنگزمیں قراردیں پاس کرکے اپنے اثاثے عوام کے سامنے پیش کررہے تھےسپریم
کورٹ کے ججز بھی اگر غلط اثاثے ظاہر کرتے تو یہ بد اخلاقی صر ف اخلاقی ہی تھی
قانونی نہ تھی اسی دوران جسٹس بی کے رائے نے 2004 میں ہریانہ اور پنجاب کے چیف
جسٹس کی حیثیت سے ان "انکل" ججز کو خط لکھ دیا جو ایک خاموش کوآپریٹو
سوسائٹی بناکر ایک دوسرے کے بچوں کو ان کی مرضی کے آرڈر دے رہے تھے یہ خط خودکش
حملہ ثابت ہوا اور "انکل" ججز نے باآسانی چیف جسٹس کو ٹھکانے لگا دیا لیکن جسٹس بی کے
رائے جہاں بھی گئے "انکل" ججز کے لیئے مسائل پیدا کرتے رہے لیکن صرف قانون سازی نہ ہونے کی وجہ سے آزاد
عدلیہ اور اس کے محافظ ہمیشہ ان کو شکست فاش دینے میں کامیاب رہے جسٹس بی کے
نارائن کے اقدامات کا جواب ججز نے ہڑتال اور وکلاء نے بائیکاٹ کی صورت میں دیاجسٹس
بی کے نارائن وقتی طور پر ناکام ضرور ہوئے تھے کیونکہ بداخلاقی کا پیمانہ جانچنے
کا کوئی معیار مقرر نہ تھا ججز کے راتوں رات بڑھتے ہوئے اثاثے اخلاقی جرم نہ تھے وہ اثاثے ظاہر کرنے کے غیر آئینی سوال پر بھڑک
اٹھتے تھے اور اس کو آزاد عدلیہ کے خلاف
سازشیں قرار دیتے تھے اور" انکل ججز "
نعرے لگاتے ہوئے ہڑتال پر چلے جاتے تھے لیکن
جسٹس نارائن تنہا نہ تھے انڈیا کی سپریم کورٹ اور ان کے ساتھ ججزمسلسل "انکل ججمنٹس "پر
اپنے سخت ریمارکس دیتی رہے انڈیا کی عدلیہ
کا ایک اہم حصہ مسلسل اس بداخلاقی کے خلاف جدوجہد کرتا رہا جس کا
ہم پاکستانی بھی شکار ہیں اس
ساری پریکٹس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام میں شعور بیدار ہوا جسٹس نارائن غلط تھے یا
صحیح یہ ایک الگ بحث ہے لیکن آخر کار یہ معاملہ انڈیا کے ایک عام شہری تک پہنچابعد ازاں بارکونسلز
اور عام وکیل اس جدوجہد میں شامل ہوئےاور
ایک طویل جدوجہد کے بعد بداخلاقی یا
اختیارات کے ناجائز استعمال کی قانونی تعریف بھی کی گئی اور فیس ویلیو کے نام پر انکل ججز
کو کنٹرول کرنے کیلئے کچھ اصول اور کچھ ضابطے بنادیئے گئے رشتے داری کی تعریف بھی
کی گئی اور ان کی حدود مقرر کی گئی
“Misbehavior” means,—
(i)
Conduct which brings
dishonor or disrepute to the judiciary; or
(i)(ii)
Willful or persistent failure to perform the duties of a Judge; or
(i)(iii)
Willful abuse of judicial office; or
(i)(iv)
Corruption or lack of integrity which includes delivering judgments for
collateral
(i)or
extraneous reasons, making demands for consideration in cash or kind for
(i)giving
judgments or any other action on the part of the Judge which has the effect
(i)of
subverting the administration of justice; or
(i)(v)
Committing an offence involving moral turpitude; or
(i)(vi)
Failure to furnish the declaration of assets and liabilities in accordance with
the
(i)provisions
of this Act; or
(i)(vii)
Willfully giving false information in the declaration of assets and liabilities
under
(i)this
Act; or
(i)(viii)
Willful suppression of any material fact, whether such fact relates to the
period
(i)before
assumption of office, which would have a bearing on his integrity; or
(i)(ix)
Willful breach of judicial standards.
(i)
جوڈیشل
اسٹینڈرڈ اور احتساب بل کے تفصیلی
مطالعے کی ہمیں سخت ضرورت ہے کیونکہ یہ
عدلیہ کے ججز کے احتساب ،ان کے اثاثوں ،متنازعہ انکل ججمنٹس ،فیس ویلیو بداخلاقی یا اختیارات کے ناجائز
استعمال اور رشتے داروں کے حوالے سے ایک مناسب بحث کرتا ہے
انڈیا
میں قانون سازی کے بعد اخلاق کا وہ معیار جو خود احتسابی کے تحت 7 مئی 1997 کو
انڈیا کے سپریم کورٹ کے ججز نے خود اختیار کیا رضاکارانہ بنیادوں پر وہ قانون بنا
اور اس کی خلاف ورزی کو بداخلاقی یا
اختیارات کے غلط استعمال قرار دیا گیا لیکن انڈیا کی ہایئکورٹس کے ججز نے رضاکارانہ
بنیادوں پر اپنے اثاثے ظاہر کیئے اور 1997 سے جاری یہ سفر بالآخر قانون سازی پر
ختم ہوارشتے داری کی بنیاد پر انکل ججز کے فیصلوں پر اعتراض کا ایک قانونی راستہ
نکالا گیا جس کے بعد "فیس ویلیو" کے خلاف جاری جدوجہد اب انڈیا میں ایک
نئے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے اس دوران ایک طویل بحث جاری رہی ہے کہ اخلاقیات کیا
ہیں اور بداخلاقی کیا ہے
اخلاق کا اعلی معیار یہ بھی ہے کہ یہ
شاید 1992 کے دور کا واقعہ ہے تاریخی دستاویز دستیاب نہیں میرے پاس لیکن یہ بات
ایک سینیئر ایڈوکیٹ نے مجھے بتائی کہ ہایئکورٹ کے ایک چیف جسٹس نے خود احتسابی کا
یہ معیار بھی قائم کیا کہ انہوں نے ججز کے چیمبر میں صرف جج کی اپنی ایک ہی کرسی
رکھنے کا حکم دیا تھا کیونکہ صرف یہی ایک
طریقہ تھا ان دوستوں کو روکنے کا جو چیمبر میں ان ججز سے ملنے آتے تھے جو ان سے
دوستی کے دعوے دار تھے اور خود احتسابی کا یہ سلسلہ سب آرڈینیٹ کورٹس تک چلا گیا
تھا جس کی وجہ سے ججز کے چیمبر میں دوستوں کی آمدورفت کا سلسلہ ختم ہوا تھا اس پر
قانون خاموش ہے لیکن میں ذاتی طور پر اس کو اخلاقیات کا اعلی معیار سمجھتا ہوں
لیکن کرسیاں رکھنا بھی بری بات نہیں ہے البتہ ججز کے پاس اس کے دوستوں اور رشتے
داروں کا آنا اخلاقی طور پر ٹھیک نہیں ہے
اسی طرح جس وکیل نے بار میں25 سال کا طویل عرصہ
گزارا ہو اس کے بار میں موجود دوست ، رشتے داراور احباب اس سے من پسند فیصلوں کی
توقع رکھتے ہیں یہ ایک قدرتی امر ہے بار
کے ٹایئکون بھی اپنے چیمبرز سے اس لیئے جسٹس مقرر کرواتے ہیں کہ مرضی کے فیصلے
لینے میں آسانی ہو اس لیئے رشتے داروں دوستوں اور سابقہ لاء فرم کے دوستوں سے بچنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ان کو دوسرے
صوبے میں بھیج دیاجائے اور آئین پاکستان بھی اس کی اجازت دیتا ہے
بدقسمتی
سے پاکستان میں خود احتسابی کا نظام موجود نہیں ہے اکثر ججز اپنی آمدنی سے زائد اثاثے رکھتے ہیں
ہماری عدلیہ میں کوئی جسٹس بی کے نارائن بھی موجود نہیں اور بار بھی خاموش ہے اور سپریم کورٹ بھی ہایئکورٹس کی ججمنٹس پر
ریمارکس یا اسٹرکچر پاس نہیں کرتی سخت الفاظ میں اس کو ملی بھگت بھی کہہ سکتے ہیں
اخلاق
یہ ہے دہلی ہایئکورٹ نے اپنی ویب سائٹ پر
ججز کے اثاثے قانون سازی سے پہلے ظاہر کیئے
مدراس
ہایئکورٹ کی ویب سائٹ دیکھیں
یہ
بھی اخلاقیات ہی ہے
اب دیکھ لو ہم نے پاکستان کے بارے میں زیادہ بات نہیں کی
No comments:
Post a Comment