Powered By Blogger

Saturday 2 November 2013

چٹکی بجانے سے بھی کم وقت میں عدلیہ سے کرپشن ختم کی جاسکتی ہے

عدلیہ کی گورننس بہت ہی پیچیدہ ہوتی ہے۔دیگر اداروں سے مختلف آزاد عدلیہ اپنے قواعد اور ضوابط خود بناتی ہے  رولز بنانے کی آزادی کا پہلا غلط استعمال اس وقت ہوا جب ہم نے برٹش کے بنائے ہوئے ایک اہم اصول کو توڑ دیا  اور اس اصول کا تعلق اخلاق سے تھا ہم نے اس پہلے ہی اصول کو توڑ کر بد اخلاقی کی طرف پہلا قدم بڑھایا ۔ایک جسٹس کے بیٹے کیلئے طے شدہ اصول تھا کہ وہ اس صوبے میں پریکٹس نہیں کرسکتا جس میں اس کا والد جسٹس ہو۔یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان سے پہلے  جسٹس اس اصول کو اہمیت دیتے تھے آج جب آپ کسی جسٹس کے بیٹے کو ماہانہ کروڑوں روپے کماتے ہوئے دیکھیں تو آپ کو حیرت اور حیرانگی نہیں ہونی چاہیئے کہ یہ کروڑوں روپیہ کیوں کما رہا ہے  جس معاشرے میں اخلاقیات دم توڑ جائیں  ایسے معاشرے ہر میدان میں ان مسائل کا شکار رہتے ہیں جن سے ہم دوچار ہیں۔ دوسری بداخلاقی یہ کہ جسٹس بن جانے کے بعد بھی جسٹس کی لاء فرم کام کرتی ہیں اور بہت سے جسٹس اپنی لاء فرمز  کی ترقی کیلئے کاوشیں بھی کرتے ہیں۔ کیا یہ کرپشن نہیں ؟  کیا عدلیہ نے اپنی آزادی کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھایا ؟ کیا ایک جسٹس کی اپنی لاء فرم کا کوئی اور لاء فرم مقابلہ کرسکتی ہے؟  جج بھی گھر کا ہو وکیل بھی گھر کا ہو تو عدالتی فیصلے بھی گھر ہی لکھے جایئں گے  ایک بار کے بہت بڑے اور اہم عہدے دار ہمارے حامی تھے لیکن ان دو اہم مسائل پر بات ہوئی تو کیونکہ  اس بداخلاقی سے تو ان کے اپنے مفاد وابستہ ہیں تو میں نے محسوس کیا کہ اس قسم کی گستاخی ان کو قطعی پسند نہیں آئی نےپہلے ہی وضاحت کردی کہ عدلیہ کی گورننس دیگر اداروں کے مقابلے میں پیچیدہ ہے اور شاید یہ دنیا کا پیچیدہ ترین علم بھی ہے پاکستان میں بہت کم لوگ عدلیہ کی گورننس کا علم رکھتے ہیں دنیا بھر میں بہت ہی سادہ اصول اپنا کر عدلیہ کو کرپشن سے پاک کیا گیا ہے   انتظامی جسٹس کی زیرنگرانی کیس منیجمنٹ ایک ایسا نظام ہے جس کے زریعے چٹکی بجانے سے بھی کم وقت میں کرپشن ختم کی جاسکتی ہے اگر ہماری عدلیہ کرپشن ختم کرنا چاہے تو یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن ان پالیسیز سے اپنے پرائے کی پالیسی ختم ہوجائے گی   حقدار کو حق ملے گا اور عدلیہ زیادہ بہتر انداز میں کام کرے گی
ایک سب سے بڑا ظلم جو عدلیہ نے کیا وہ ہے کسی سیشن جج کو ایلیویٹ کرنے کے بعد ایک سال ہایئکورٹ کا ایڈیشنل جج بنا کر کنفرم نہ ہونے کی صورت میں دوبارہ سیشن بھیج دینا اس پالیسی نے کراچی کی ڈسٹرکٹ عدلیہ کو سخت نقصان پہنچایا  آج بھی کراچی کا ڈسٹرکٹ ایسٹ ان ہی مسائل سے دوچار ہے سندھ ہایئکورٹ خود فیصلہ کرے خود ہی انصاف کرے کہ کراچی کے دو اضلاع میں سیشن جج موجود ہی نہیں ہیں جس سے سارے عمل کی سنجیدگی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کون کتنا سنجیدہ ہے آج پروموشن پالیسی کو نشانہ بنایا جاتا ہے اندرون سندھ ججز کے ساتھ میٹنگ کے دوران میں نے سب سے زیادہ یہ بات محسوس کی کہ ججز پروموشن پالیسی سے سخت مایوس ہیں   کئی ججز ایسے ہیں جو انہی پالیسی کی وجہ سے استعفی دینے کا سوچ رہے ہیں اچھے لوگوں کی شاید عدلیہ کو ضرورت ہی نہیں جب تک پروموشن پالیسی کیس منیجمنٹ پلان کے تحت ججمنٹ سے منسلک نہیں ہوگی  حقدار کو اس کا حق نہیں مل سکتا اچھے لوگ مایوس رہیں گے
ہمیں خوشی ہے کہ صرف سات ماہ کے مختصر عرصے میں دوستوں کا ایک بہت  اچھا حلقہ احباب ملا کئی اہم معاملات پر ہم اثر انداز ہوئے کئی مقامات پر دوستوں نے رہنمائی بھی کی انشااللہ 10 دسمبر 2013 کے بعد بعض اہم پالیسی سازی سے متعلق معاملات پر ہم بتدریج اثرانداز ہونگے جس سے معاملات حقیقی انداز میں حل ہونگے

ہم نے طرز تحریر کا عوامی لب و لہجہ اپنایا  ہم مانتے ہیں کہ وہ عدلیہ کہ شایان شان نہ تھا لیکن اس وقت مایوسی کے ایسے اندھیرے تھے جن سے نکلنے کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا تھا  لیکن آج ہم ایک مکالمے کی بنیاد رکھنے میں تو کامیاب نظر آتے ہیں  ایک ایسا مکالمہ جس کے نتیجے میں ایک حقیقی آزاد عدلیہ سامنے آئے گی فرسودہ نظام کے خاتمے کا وقت قریب  تو آرہا ہے لیکن یہ ہرگز آسان نہیں ہوگا

No comments: