Powered By Blogger

Thursday 7 November 2013

غیرقانونی حراست اور عدلیہ کا کردار

وہ  بوڑھا ایک عام پاکستانی شہری تھا  اس کے بیٹے کو پولیس کی خفیہ ایجنسی نے اغوا کرلیا تھا اور اب وہ اس سے  5 لاکھ روپے تاوان کی رقم طلب کررہے تھے  دوسری صورت میں اس کو "مس " کردیا جاتا اور اس کو  مسنگ پرسن میں شامل کردیا جانا تھا  سہ پہر 4 بجے کا وقت تھا اس بوڑھے شخص کو پورا بھروسہ تھا کہ عدلیہ آزاد ہے  اور اس کو اس بات پر بھی مکمل اعتماد تھا کہ  وہ جیسے ہی عدالت میں پیش ہوگا عدالت اس کے حقوق کی حفاظت کیلئے اس کا فوری طور پر ساتھ دے گی اس کو میڈیا کے زریعے اپنے حقوق کی مکمل آگہی حاصل تھی وہ جا نتا تھا کہ غیرقانونی حراست کے خاتمے کیلئے اس نے کہاں جانا ہے وہ فوری طور پر ایک وکیل کے پاس پہنچا اور اپنے اوپر بیتنے والے افسوسناک واقعے کے متعلق بتایا وکیل نے واقعہ سنا اور کہا  انشاءاللہ کل ہم عدالت میں صبح سویرے پیش ہوں گے اور عدالت بیلف مقرر کرے گی جس کے بعد وہ تھانے میں جاکر ریکارڈ چیک کرے گا اگر آپ کے بیٹے کے خلاف کوئی مقدمہ نہ ہوا ور تھانے میں گرفتاری کا ریکارڈ نہ ہوا تو اس کو رہا کردیا جائے گا اور پولیس افسران کے خلاف کاروائی ہوگی
یہ سن کر بوڑھا رونے لگا کیا ابھی کوئی کاروائی نہیں ہوسکتی عدلیہ تو آزاد ہے پھر میرا حق کیوں محفوظ نہیں ہے  میرے بیٹے کو پولیس نے اغوا کرلیا ہم ایک ایک لمحہ تڑپ تڑپ کر گزار رہے ہیں اس کی بہنوں پر ایک ایک لمحہ قیامت کی طرح گزررہا ہے اس کی ماں پر قیامت گزرگئی ہے ہمارے دل غم اور خوف سے پھٹ رہے ہیں اور آپ ہمیں کہتے ہیں کہ کل تک انتظار کریں  وہ عدلیہ کہاں ہے جس کی آزادی کے چرچے ہم ہرروز میڈیا پر دیکھتے ہیں
وکیل صاحب نے تحمل سے کہا بابا آپ فکر نہ کریں عدلیہ آزاد ہے اور مکمل آزاد ہے لیکن چار بج چکے ہیں  عدالت کا وقت ختم ہوچکا ہے آپ سمجھنے کی کوشش کریں
بوڑھے نے کہا عدالت کا وقت کیسے ختم ہو سکتا ہے پولیس کا تھانہ تو 24 گھنٹے کھلا رہتا ہے وہ تو کسی بھی انسان کو کسی بھی وقت اغوا کرسکتے ہیں کسی بھی شہری کو غیرقانونی طور پر حراست میں لے سکتے ہیں   جب ان کا وقت مقرر نہیں تو عدالت نے اپنا وقت کیسے مقرر کرلیا  اگر عدالتی وقت کے بعد کسی شہری کو پولیس غیرقانونی طور پر حراست میں لے لے تو اس کا کیا علاج ہوگا
اس کا کوئی علاج نہیں ہوگا اگر آپ  ہایئکورٹ کے کسی جسٹس کو جانتے ہیں تو ان کے گھر جا کر بیلف اپوایئنٹ کروالیں ان کے پاس تو ہر وقت اختیار ہوتا ہے وکیل نے جواب دیا

یہ سن کر بوڑھے نے کہا یہ کیسا انصاف ہے عدلیہ جو ہمارے حقوق کی نگہبان ہے جس کا اتنا چرچہ ہے کیا وہ میری کوئی مدد نہیں کرے گی
وکیل نے کہا بابا اس معاملے میں ہم مجبور ہیں کچھ بھی نہیں کرسکتے
بوڑھے نے کہا بیلف کون مقرر کرے گا
وکیل نے کہا سیشن جج مقرر کرے گا بوڑھے نے کہا آپ  مجھے سیشن جج کے گھر ایڈریس دیں میں ان کے گھر جاکر انصاف مانگ لوں گا عدلیہ آزاد ہے میری مدد ضرور کرے گی
وکیل نے کہا بابا ایک مسئلہ ہے سیشن جج کی سیٹ خالی ہے اس وقت کوئی بھی سیشن جج نہیں ہے جس کی وجہ سے مجھے شرمندگی سے کہنا پڑرہا ہے کہ  عدلیہ اس حوالے سے اس وقت کوئی مدد نہیں کرسکتی اگر آپ گھر بھی چلے جایئں گے تو اس سے ایک نیا  مسئلہ پیدا ہوگا سیشن جج کی مرضی وہ آپ سے ملے یا نہ ملے وہ پابند نہیں اگرچہ قانونی طور پر وہ اپنے ڈسٹرکٹ کا حقیقی جسٹس آف پیس بھی ہے لیکن  عدلیہ کے پاس ایسا کوئی نظام موجود ہی نہیں کہ وہ عدالتی اوقات کے بعد آپ کی مدد کرے اب صرف اللہ ہی آپ کی مدد کرسکتا ہے
لیکن چیف صاحب لاپتہ افراد کے مقدمات کی جس طرح پیروی کرتے ہیں  جس طرح خفیہ ایجنسیوں  کو ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہیں ان کو چاہیئے کہ وہ اس ادارے کو فعال کریں جو پاکستان سے غیرقانونی حراست کا خاتمہ کرے  بوڑھے نے ایک عزم سے کہا آپ مجھے اس نااہل ادارے کا ایڈریس دیں جو غیر قانونی حراست کا خاتمہ کرتا ہے میں اپنے چیف کو بتاؤں گا وہ اس ادارے کے خلاف ضرور ایکشن لیں گے جس کی نااہلی کی وجہ سے غیرقانونی حراست کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے

وکیل نے کہا بابا احتیاط سے گستاخی نہ ہوجائے سوچ سمجھ کر بولیں   کیونکہ عدلیہ ہی وہ ادارہ ہے جو غیرقانونی حراست کا خاتمہ کرسکتی ہے بدقسمتی سے عدلیہ نے ایسا کوئی نظام بنایا ہی نہیں ہے جس کے ذریعے 24 گھنٹے شہریوں کو غیرقانونی حراست سے بچایا جاسکے  تاکہ غیرقانونی حراست کا خاتمے کے نظام کی وجہ سے کسی ایجنسی کیلئے اتنی آسانی سے شہریوں کو لاپتہ کرنا آسان نہ ہوتا

بوڑھے نے ایک ٹھنڈا سا سانس لیا اور کہا اگر کل ہم عدالت میں پیش ہوجاتے ہیں تو کب تک عدالت بیلف مقرر کرے گی
وکیل نے کہا کم ازکم بھی پانچ گھنٹے تو لگ ہی جایئں گے زیادہ بھی لگ سکتے ہیں
بوڑھے نے بے بسی سے کہا یہ کیسی عدلیہ ہے   اس کا مطبل ہے عدلیہ نے اپنے حصے کاکام نہیں کیا
وکیل نے کہا بابا ایسا نہ کہیں جو لوگ لاپتہ ہوگئے ہیں عدلیہ ان کی بازیابی کیلئے دن رات کوشش کررہی ہے ہرروز خفیہ ایجنسیوں کے  افسر چیف صاحب سے روزانہ کی بنیاد پر ڈانٹ کھا کر نکلتے ہیں
بوڑھے نے کہا اور جو لاپتہ نہیں ہوئے ان کے تحفظ کا کوئی انتظام نہیں
وکیل نے کہا بابا صبر کریں  ایسا کریں کچھ دن انتظار ہی کرلیں جب  چند روز گزر جائیں تو آپ بھی شاہراہ دستور پر اپنے بیٹے کی تصویر لیکر کھڑے ہوجانا   عدلیہ آپ کی مدد ضرور کرے گی
اسی دوران ایک نجی نیوز چینل سے خبر چل رہی تھی کہ لاپتہ افراد کے کیس کی سماعت ہوئی چیف جسٹس پاکستان نے خفیہ ایجنسیوں پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے تمام ادارے تباہ ہوچکے ہیں
صفی الدین اعوان

0334309330

No comments: