Powered By Blogger

Saturday 30 November 2013

حیرت ہے سول جج کو اسٹینو جیسی بنیادی دفتری سہلولت کیوں حاصل نہیں

کسی بھی ادارے میں کام کرنے کیلئے کام کرنے کا ایک بہتر ماحول بنانا بہت ضروری ہوتاہے۔ عدالت کیلئے کام کا ماحول بنانا مزید ضروری ہوجاتا ہے کیونکہ جب تک کمرہ عدالت میں سکون نہ جج  جب تک عدالت کے سارے کام سلیقے سے نہ ہورہے ہوں کمرہ عدالت میں افراتفری ہورہی ہو تو کام کرنے کا ماحول تو بالکل ہی ختم ہوجاتا ہے  اس لیئے  جب تک کمرہ عدالت میں سکون نہیں  ہوگا اس وقت تک کسی بھی جج اور عدالت میں پیش ہونے والے وکیل کیلئے کورٹ میں کام کرنا نہایت ہی مشکل ہوجاتا ہے
آپ اپنے مقدمے کی سماعت کیلئے آتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ پراسیکیوشن کو تو کورٹ کی جانب سے نوٹس ہی جاری نہیں کیا گیا اب  سول جج اس کورٹ کلرک کو بلاتا ہے جس سے کورٹ اس کی مقرر کردہ ذمہ داریوں سے پہلے ہی ذیادہ کام لے رہی ہے تو کس طرح اس کی سرزنش کرسکتی ہے
سول جج ہماری عدلیہ کی بنیادی اینٹ ہے یہ وہ بنیادی اینٹ ہے جس پر ہمارا پورا نظام کھڑا ہے آج کا سول جج کل کا سینئر سول جج  یا ایڈیشنل ڈسٹرکٹ سیشن جج بنے گا جس کے بعد وہ ترقی کی منزلیں طے کرتا ہواسیشن جج ،جسٹس اور بعد ازاں چیف جسٹس پاکستان بھی بن سکتا ہے
ہماری گورننس کی ایک کمزوری کہ  صوبہ سندھ کا عدالتی نظام ایک سول جج کو اسٹینو گرافر کی سہولت فراہم نہیں کرتا  جس کی وجہ سے سول جج کو اپنے تمام آرڈرز خود ٹائپ کرنے پڑتے ہیں  دن بھر مختلف قسم کے مسائل سے دوچار رہنا پڑتا ہے ریمانڈ  پر آرڈرز ،ضمانت کی درخواستوں پر آرڈر،گواہی ریکارڈ کرنا،164 کے بیانات ریکارڈ کرنا اور اس طرح کے بے شمار کام ہوتے ہیں جن  میں ایک سول جج پورا دن مگن رہتا ہے حیرت ہے کہ سول جج کو اسٹینو گرافر جیسی بنیادی دفتری سہولت کیوں نہیں دی گئی اس کو جوکورٹ اسٹاف دیا جاتا ہے وہ  روزانہ کے معمولات میں اسقدر مگن ہوتے ہیں کہ ان کو فرصت ہی نہیں ملتی  وہ روزانہ کی بنیاد پر کاز لسٹ بناتے ہیں جس میں 100 مقدمات کی تفصیل لکھنی ہوتی ہے  یہ تو کورٹ کلرک کا روزانہ کا کام ہے اس کے بعد روزانہ کم ازکم 60مقدمات میں پراسیو کیوشن برانچ کو مختلف قسم کے نوٹس  اور وارنٹ بھیجنے  ہوتے ہیں اس دوران کورٹ کلرک کو اسٹینو کا اضافی کام بھی کرنا ہوتا ہے
صرف اسٹینوگرافر نہ ہونے کی وجہ سے کورٹ کے بےشمار کام التواء کاشکار ہورہے ہوتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ عدالتی طرز حکمرانی یعنی گورننس میں  مجسٹریٹ  اور فیمل جج  کی عدالت میں اسٹینو کی سیٹ  مختص ہی نہیں جس کی وجہ سے مجسٹریٹ اور فیملی ججز کا م کے بے تحاشا دباؤ کا شکار رہتے ہیں اسٹینو نہ ہونے کی وجہ سے کام کا رش بڑھتا ہے وکلاء اور سائلین کے کام وقت پر نہ ہونے کی وجہ سے اکثر  کورٹ کے اسٹاف سے تلخ  کلامی کا سلسلہ چل رہا ہوتا ہے جس کی وجہ سے روزانہ کی بنیاد پر ماحول خراب ہورہا ہوتا ہے اسٹینو نہ ہونے کی وجہ سے کچھ سول ججز رش کی وجہ سے "جگاڑ"  کرتے ہیں جس کی وجہ سے عدالتی  کام کے معیار میں فرق پڑتا ہے میری ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشنز سے اپیل  ہے کہ وہ سندھ ہایئکورٹ  کو خط لکھیں کہ سول جج کی عدالت میں اسٹینو کی سیٹ کا اضافہ کیا جائے اسی طرح سندھ بار کونسل سے بھی گزارش ہے کہ  وائیس چیئر مین صاحب اس حوالے سے چیف جسٹس سندھ ہایئکورٹ سے ملاقات کریں اور انہیں  مجسٹریٹ کی عدالت کے مسائل سے آگاہ کریں کیونکہ اس وقت سول جج کو اسٹینو کی سہولت حاصل  نہیں ہے اگر اس کیلئے ایک نئی سیٹ کا اضافہ کرنا ہوگا تو صوبہ سندھ کی فنانس  منسٹری سے  بجٹ کی منظوری لینا لازمی ہوگا   اس لیئے گزارش ہے کہ بجٹ سفارشات میں  عدلیہ کی جانب سے جہاں بہت سی گزارشات بھیجی جارہی ہیں وہیں اسٹینو کی سیٹ کیلئے بھی سفارشات بھجوادیں تاکہ کم از کم جولائی تک  صوبہ س€ندھ کے مجسٹریٹس  اور فیملی ججز کو اسٹینو کی سہولت حاصل ہوجائے
بار ایسوسی ایشنز کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایسے مسائل  کا روزانہ کی بنیاد پر جائزہ لیں جن کی وجہ سے ایک عام شہری کو عدالت میں آکر پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے امید ہے  سول ججز کو سہولت دینے سے عام شہریوں کو ریلیف ملے گا
تحریر :صفی الدین اعوان

لاء سوسائٹی پاکستان

No comments: