Powered By Blogger

Sunday 20 October 2013

سب ٹھیک ہے سب اچھا ہے

سب اچھا ہے سب ٹھیک ہے
سیمینار اختتام کی طرف بڑھ رہا تھا تمام ہی معزز مہمان فکر انگیز تقاریر کرکے جاچکے تھے  مقررین بھی کیسے اس وقت کے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ سرمد جلال عثمانی،اس وقت کے سینیئر پیونی جج مشیرعالم صاحب،جسٹس اطہر سعید صاحب جسٹس کورائی،اراکین سندھ بار کونسل اور نامور سینئر وکلاء شامل تھے عدلیہ بحالی کے بعد "عدلیہ اور بار ہنی مون" کے دور سے گزر رہے تھے  ابھی  مسائل نے جنم نہیں لیا تھا ابھی" بار اور بنچ "نامی گاڑی کے دونوں پہیے رواں دواں تھے مفاہمت ہی مفاہمت تھی  چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ تعریف اور توصیف سمیٹنے کے بعد اور تمام اسٹیک ہولڈرز سے خوشامدی کلمات سننے کے بعد اپنا صدارتی خطاب کرکے جاچکے تھے سب نے کہا تھا کہ "سب اچھا ہے" عدلیہ بہترین کام کررہی ہے واہ واہ کیا بات ہے عدلیہ کی شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ پر پانی پیتے ہیں
پروگرام کے  میزبان کی حیثیت سے معزز مہمانوں کا شکریہ ادا کرنے آیا تو شکریہ سے پہلے میں نے اس وقت کے چیف جسٹس سے اجازت لیکر کہا
" خوگر حمد سے زرا سا گلہ بھی سن لو" "سچ اگرچہ کڑوا ہوتا ہے مگر چمن میں میری تلخ نوائی گوارا کیجئے " میں نے انتہائی مختصر ترین الفاظ میں صرف دومنٹ کے قلیل وقت وہ دو باتیں کہہ دیں جو تمام اسٹیک ہولڈرز نے مصلحتاً نہیں کہی تھیں اس سیمینار سے چند ماہ قبل یکم جون 2010 کو ہمارے ایک سیمینار میں سرمد جلال عثمانی صاحب نے اتوار اور دیگر تعطیلات کے دن مجسٹریٹ آن ڈیوٹی کے زریعے صوبے بھر میں ایمرجنسی نوعیت کے عدالتی معاملات خصوصاً غیر قانونی حراست کے خاتمے کیلئے ریمانڈ پیش کرنے کیلئے اتوار کے دن مجسٹریٹ آن ڈیوٹی کا اعلان کیا تھا یہ اس لحاظ سے ایک تاریخی فیصلہ تھا کیونکہ صوبہ سندھ میں اتوار اور دیگر تعطیلات کے دوران عدالتیں بند ہوتی تھیں جس کی وجہ سے پولیس عوام کو معمولی جرائم میں بند کرکے غیر قانونی حراست میں بند رکھتی تھیں اگرچہ ہم 5جون 2010 کو نوٹیفیکیشن کی کاپی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے پورے سندھ کے میڈیا نے اس پر عدلیہ کو خراج تحسین بھی پیش کردیا لیکن پورے سندھ کے سیشن ججز نے بدقسمتی سے اس نوٹیفیکیشن کو مزاق مزاق میں ہوا ہی میں  اڑا دیا کیونکہ ماتحت عدلیہ طرز حکمرانی کے مسائل کو شکار ہے اس لیئے عمل نہ ہوا  اسی دوران عیدالاضحی آگئی اور عید کے دن ڈبل سواری کے الزام میں پولیس چند افراد کو ڈسٹرکٹ ایسٹ کی عدالت میں ریمانڈ کے لیئے لے آئے لیکن عدالتوں پر تو تالے لگے تھے اس دوران ایک نیوز چینل نے براہراست وہ مناظر دکھائے جس کے بعد اس وقت کے سیشن جج اور موجودہ جسٹس محترم صادق بھٹی صاحب نے فوری طور پر اپنے ضلع کے ایک مجسٹریٹ کو حکم دیا کہ وہ فوراً عدالت پہنچیں بہرحال مجسٹریٹ آیا عدالت کھلی اور ان افراد کی ضمانت ہوئی مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس دن صرف سینٹرل کی عدالت کھلی تھی باقی ضلعوں کی عدالتیں بند تھیں اور پولیس والے ریمانڈ کیلئے گھوم رہے تھے یہ واقعہ میڈیا میں بھی رپورٹ ہوچکا تھا لیکن چونکہ جان بوجھ کر ماتحت عدلیہ میں طرزحکمرانی کے مسائل پیدا کیئے گئے ہیں اس لیئے کوئی نوٹس نہیں لیا گیا دوسرا معاملہ جو میں نے مشاہدہ کیا تھا وہ یہ تھا کہ میں اس وقت طرزحکمرانی جیسے اہم ترین ایشو پرکام کرنے والے ادارے کے ساتھ مل کر پاکستان میں سیاسی نوعیت کے تنازعات اورسیاسی نوعیت کی ٹارگٹ کلنگ پر ریسرچ ورک کررہاتھا  اسی دوران کچھ سیاسی کارکنان کی ٹارگٹ کلنگ اور بعض سیاسی مقدمات کی ایف آئی آر متعلقہ مجسٹریٹ کی عدالت سے حاصل کرنے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ طرزحکمرانی کا اصل مسئلہ تو ماتحت عدلیہ میں ہے اگرچہ تھانہ پابند ہے کہ وہ ایف آئی آر کی کاپی فوری طور پر عدالت میں پہنچائے لیکن وہاں ایسا کوئی سلسلہ نہ تھا اس وقت مجموعی طور پر یہ سلسلہ چل رہا تھا کہ ایف آئی آر رجسٹر ہوتی تھی جس کے بعد ملزم پابند ہوتا تھا کہ وہ پولیس کے "وکیل" سے ضمانت کروائے کیونکہ ضمانت قبل از گرفتاری کیلئے ایف آئی آر کی کاپی فراہم کرنا ملزم کیلئے لازمی ہے یا تفتیشی افسر سے مل کر کیس ہی "سی" کلاس کروالے اہم نوعیت کی ایف آئی آر جن میں پیسہ ہوتا تھا کورٹ میں پیش نہیں کی جاتی تھیں اور وہ ایف آئی آر پولیس یا ان کے وکیل کے پاس ہوتی تھی  پولیس کے وکیل بھی وہ ہوتے تھے یا ہیں جن کاکام ہی وکلاء کے مفادات کی حفاظت کرنا ہے لیکن لاکھوں روپے فیس لیتے وقت ان کو صرف اپنا مفاد ہی یاد رہتا ہے
 طرزحکمرانی کے مسائل پیدا کرنے کیلئے سب سے پہلے "ریکارڈکیپنگ" کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے تاکہ رش اور افراتفری پیدا کرکے فراڈ کا راستہ تلاش کیا جاسکے اسی نیت کے تحت اس وقت ایف آئی آر کا ریکارڈ رکھنے کا کوئی انتظام نہ تھا چونکہ ریکارڈکیپنگ ہی نہیں ہے تو سزا جزا کیسی اس لیئے ایف آئی آر کا ریکارڈ رکھنے کا کوئی انتظام نہ تھا ایک بنڈل موجود تھا جس میں بغیر ترتیب کے ایف آئی آر موجود ہوتی تھیں  مین نے سیمینار سے چند دن قبل ریسرچ کرلی تھی جس کے مطابق کراچی کے پانچوں اضلاع میں ایف آئی آر کا ریکارڈ رکھنے کا کوئی انتظام نہ تھا مختصر یہ کہ ان دو واقعات کو زہن میں رکھ کر میں نے چیف جسٹس صاحب سے کہا کہ سب اچھا نہیں ہے آپ کے مجسٹریٹ آن ڈیوٹی کے احکامات کو ہوا میں اڑا دیا گیا ہے اور عدالتوں میں طرز حکمرانی کے مسائل خصوصاً ریکارڈکیپنگ کے معاملات کی وجہ سے ایف آئی آر کی ریکارڈکیپنگ نہ ہونے کی وجہ سے تھانے سے اہم ایف آئی آر کی کاپیاں وصول ہی نہیں ہوتی ہیں اور اس تمام نااہلی کے زمے دار آپ کے سیشن ججز ہیں میں نے یہ بات کہہ کر ووٹ آف تھینکس ادا کیا لیکن اس دوران "سب اچھا ہے" کی رپورٹ دینے والوں کی دوڑ لگ چکی تھی اسٹیج سے نیچے اترتے وقت عدالت عالیہ کی ایک اہم شخصیت نے غصے میں لال پیلا ہوکر چیف جسٹس کے سامنے یہ کہا کہ اس لڑکے نے جھوٹ بولا ہے تمام ریکارڈ مرتب حالت میں موجود ہے"سب اچھا ہے" میں نے بھی فوری جواب دیا کہ جھوٹ میں نہیں آپ بول رہے ہیں اگر ریکارڈ کیپنگ ہے تو کہاں ہے کسی بھی ضلع میں ایف آئی آر کا رجسٹر موجود نہیں ہے  "سب اچھا نہیں ہے" خیر سرمد جلال عثمانی صاحب معاملہ فہم تھے کہا کہ اس مسئلے کی تحقیق کی ضرورت ہے ایک دن بعد انتہائی خاموشی سے ڈسٹرکٹ کورٹ تشریف لائے ایک مجسٹریٹ کی کورٹ میں خاموشی سے گئے ایف آئی آر رجسٹر طلب کیا موجود نہیں تھا سمجھ گئے کہ "سب اچھا نہیں ہے" خاموشی سے واپس تشریف لے گئے ریکارڈ مرتب کرنے کا حکم دیا خاموشی سے عدلیہ کی کمزوری کو دور کیاجسٹس  سرمد جلال عثمانی کی خوبی ہے کہ وہ کوئی انقلاب نہیں لائے نہ ہی کوئی انقلابی جج ہیں وہ صرف ایک جسٹس ہیں انقلابی ججز کی طرح ان میں انا پرستی نہیں ہے اپنی غلطی تسلیم کرنے اور درست کرنے پر یقین رکھتے ہیں  اور تنقید برداشت کرنے کا بے پناہ حوصلہ ان میں موجود ہے  تمام سیشن ججز کو ہدایت کی کہ اگلے تین ماہ کا شیڈول دیں کے کونسا مجسٹریٹ آن ڈیوٹی تعطیل کے دن موجود ہوگا اور اس کے بعد سے آج تک مسلسل مجسٹریٹ آن ڈیوٹی تعطیلات کے دن اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں کراچی کے تین اضلاع سوائے ویسٹ کے ایف آئی آر رجسٹرڈ ہونے کے بعد متعلقہ مجسٹریٹ کی عدالت میں فراہم کردی جاتی ہے  کیونکہ ویسٹ کی عدلیہ تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ کہنے کی ضرورت نہیں گزشتہ دنوں اس کا مطا لعہ کیا تو پتہ یہ چلا کہ ایف آئی آر تین دن کے بعد یا ایک ہفتے کے بعد فراہم کی جاتی ہے کم از کم یہ مسئلہ اس قدر تو حل ہوا کہ ایک بچہ جو اسکول نہیں جاتا تھا اسکول باقاعدگی سے جانا شروع ہوگیا یہ سب سے مشکل مرحلہ تھا اب اگلا مرحلہ یہ ہے وہ بچہ روزانہ اسکول تو جاتا ہے لیکن پورا دن اسکول میں سویا رہتا ہے پڑھتا نہیں ہے اس کے حل کیلئے مولابخش کی ضرورت ہے بہت ہی آسان حل ہے کہ جتنے دن "ایف آئی آر" تاخیر سے مجسٹریٹ کی عدالت میں فراہم کی جایئگی ایس ایچ او کو یا متعلقہ کورٹ محرر کو اتنے دن کیلئے جیل بھیج دیا جائے یہ سویا ہوا بچہ خود بہ خود جاگ جائے گا اب سوال یہ ہے کہ یہ نیک کام کون کرے گا انقلابی ججز تو بات ہی نہیں سننا چاہتے تنقید سے ان کو ویسے نفرت ہے وہ تو سمجھتے ہیں کہ "سب اچھا ہے سب ٹھیک ہے"
اور یہی رپورٹ ان کو چاہیئے
لیکن آج 2013 میں پھر وہی مسائل دوبارہ ایف آئی آر کی کاپی کورٹ کو فراہم نہیں کی جاتی لیکن عدلیہ پھر بھی آزاد ہے
صفی الدین اعوان
03343093302
03008998054

safilrf@gmail.com

No comments: