Powered By Blogger

Sunday 20 October 2013

کاپیسٹ برانچ کراچی

جہاں کرپشن کرنی ہو وہاں پہلے افراتفری کا ماحول پیدا کیا جاتا ہے کراچی کی ماتحت عدالتوں میں بھی ایک خاص قسم کی افراتفری کا ماحول پیدا کیا گیا ہے اور اس افراتفری سے چند لوگ فائدہ بھی اٹھاتے ہیں چند سال قبل کراچی کی ضلع شرقی کی عدالتوں سے اس افراتفری کے خاتمے کیلئے بنیادی نوعیت کے اقدامات کیئے گئے تھے عالمی معیار کی ریکارڈ کیپنگ کی گئی تھی کلوز سرکٹ کیمروں کے علاوہ ماتحت عدلیہ کا اسٹاف کو عزت دی گئی ان کو یونیفارم مہیا کی گئی اسٹاف کو کمپیوٹر استعمال کرنے کی تربیت دی گئی اس کے علاوہ  اس وقت کے لحاظ سے جدید سہولیات سے آراستہ کاپیسٹ برانچ کا قیام عمل میں لایا گیا تھا جس میں کاپیسٹ کو نہ صرف احترام کے ساتھ نشستیں فراہم کی گئی تھیں بلکہ ہر قسم کے "جگاڑ" کا خاتمہ کرکے سائلین اور وکلاء حضرات کو باقاعدہ طریقہ کار کے مطابق مصدقہ کاپی فراہم کی جاتی تھی عوام اور عملے کو عزت اور سہولت دینے کیلئے وہاں فوٹو کاپی کی سہولت موجود تھی اس طرح کاپسٹ کیلئے پنکھوں کا انتظام بھی کیا گیا تھا جبکہ اس کے برعکس کراچی کے باقی اضلاع میں یہ سہولت تو دور کی بات کاپسٹ برانچ کا قیام عمل میں لایا ہی نہیں گیا (اگر لایا گیا ہے تو اس کا پتہ صرف اور صرف رجسٹرار سندھ ہائی کورٹ کو ہے) تمام اضلاع میں مختلف بالکونیوں رہداریوں،کونوں کھدروں میں "جگاڑ" کرکے بڑے ہی بے توقیر اور حقیر اندازمیں کاپیسٹ کو بٹھا یا گیا ہے حالانکہ کاپسٹ کوئی چلتا پھرتا بندہ نہیں ہوتا عدلیہ اس کا تقرر کرتی ہے کوئی راہ چلتا نہیں ہوتا جو کورٹ کے احکامات کی مصدقہ نقل تیار کرکے دیتا ہے انہی نقول کی بنیاد پر ہائیکورٹ میں اپیلیں فائل کی جاتی ہیں بدقسمتی سے کراچی کی عدالتوں کے مختلف کونوں کھانچوں میں بیٹھے کاپیسٹ حضرات ہماری عدلیہ کے چہرے کا ایک رخ ہیں
ضلع شرقی کی عدالتوں کی بدقسمتی کہ وہاں ایک نئی عدالت کا قیام عمل میں لانا تھا جگہ تلاش کی گئی تو پتہ چلا کہ معاشرے کے بے توقیر اور حقیر افراد عزت سے بیٹھے ہیں جب باقی اضلاع میں ان بے توقیروں کی عزت نہیں تو ہم کیوں دیں اس طرح ان حقیر کاپیسٹ حضرات کو بڑی ہی حقارت سے وہاں سے اٹھوا کر بیلف برانچ میں پھنکوادیا گیا میں جب وہاں گیا تو اس کمرے میں ایک" خوش پوش" مجسٹریٹ بیٹھا تھا ایک مشترکہ کمرے کو لکڑی کی دیوار کے زریعے تقسیم کرکے آدھے حصے کو کورٹ اور آدھے کمرے میں بیلف برانچ تھی لکڑی کی دیوار بھی برائے نام قسم کی ہی تھی اور اس دیوار میں بے شمار سوراخ تھے وہاں عجیب وغریب قسم کی افراتفری تھی یا افراتفری کا ماحول بنا ہواتھا جب تک آپ وہاں کا وزٹ نہیں کرلیتے آپ اندازہ ہی نہیں لگا سکتے کہ وہاں کیسا ماحول ہوگا انتہائی تنگ ماحول میں وہاں کاپیسٹ موجود تھے شدید گھٹن گرمی کا عالم تھا بیلف برانچ کے لوگ باہر راہداری میں بئٹھے تھے

کم از کم عدلیہ اپنے مجسٹریٹ کو عزت اور وقار کے ساتھ تو بٹھا ہی سکتی تھی

صفی


No comments: