Powered By Blogger

Saturday 19 October 2013

جب سندھ ہائی کورٹ یا عدلیہ میں جسٹس دراب پٹیل، طفیل علی عبدالرحمن اور جسٹس صبیح الدین احمد جیسے نامور لوگ موجود تھے جو نہ کرپشن کرتے تھے اور نہ ہی کرپشن کا کوئی دھبہ عدلیہ کے دامن پر برداشت کرتے تھے

  سندھ  ہائی کورٹ کا ماضی جسٹس کارنیلسن ،جسٹس کیکاؤس،جسٹس دراب پٹیل، جسٹس صبیح الدین احمد، جسٹس ظفر حسین مرزا، جسٹس عبدالقادر شیخ، جسٹس طفیل علی عبدالرحمن، جسٹس رستم کیانی اور جسٹس اجمل میاں جسیے قابل فخر جسٹس صاحبان پر مشتمل ہے یہ ماضی کے وہ ہیرے ہیں جن پر ہماری عدلیہ تادیر ناز کرتی رہے گی اور عدلیہ کو فخر ہے کہ ایسے گوہرنایاب عدلیہ سے منسلک رہے ماضی کی نہایت حسین یادوں کے ساتھ وکلاء آج بھی ان کو یاد کرتے ہیں اور یاد کرتے رہیں گے
بہت سے دوستوں بشمول سنجیدہ ججز کو ہم سے شکایات رہتی ہیں کہ بعض تحاریر عدلیہ کی بدنامی کا سبب بنتی ہیں جس کی وجہ سے عوام میں عدلیہ کا وقار کم ہوتا ہے یا متاثر ہوتا ہے تمام دوستوں کی خدمت میں عرض ہےکہ سندھ ہائی کورٹ کے گورننس سے متعلق چند اہم ایشوز پر ہمیں شدید اعتراض تھا اور ہے جس کا برملا اظہار کرتے رہے ہیں جبکہ انتہائی ادب سے یہ بھی عرض ہے کہ جب سندھ ہائی کورٹ یا عدلیہ میں جسٹس دراب پٹیل، طفیل علی عبدالرحمن اور جسٹس صبیح الدین احمد جیسے نامور لوگ موجود تھے جو نہ کرپشن کرتے تھے اور نہ ہی کرپشن کا کوئی دھبہ عدلیہ کے دامن پر برداشت کرتے تھے نہ ہی انہوں نے اپنے زمانے میں ڈسٹرکٹ  عدلیہ میں "کیس ڈسپوزل مشینیں " لگائی تھیں یہی وجہ تھی کہ کوئی جرات نہ کرتا تھا کہ کوئی عدلیہ پر بات کرے عدلیہ کے خلاف بات کرے
ادارہ تباہ ہوچکا اور کم ازکم ڈسٹرکٹ  عدلیہ کی تباہی میں کوئی کسر باقی نہیں رہ گئی 
سب سے مزے کی بات یہ ہے کہ اس بات کو تسلیم کیا جاتا ہے کہ واقعی ڈسٹرکٹ  عدلیہ میں کرپشن موجود ہے اب اس کا علاج کون کرے گا
اگر سندھ ہائی کورٹ  اپنے کرپشن کنٹرول کرنے والے بدعنوان ادارے"ایم آئی ٹی "  کو ختم کردے توڈسٹرکٹ  عدلیہ سے کرپشن خود ہی ختم ہوجائے گی 

تمام لوگوں کو آگے بڑھ کر انصاف کے  اس نظام کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرکے بچانا ہوگا 

No comments: