اختیار اور طاقت
دونوں کو ایک ہی جگہ جمع کرنا نقصان کا باعث ہوتا ہے
جہاں طاقت ہو
وہاں اختیار بہیں ہوتا اور جہاں اختیار ہو وہاں طاقت نہیں ہوتی
پولیس طاقت ہے
عدالت اختیار پولیس طاقت کے نشے میں مست ہے اور اختیار من مانی سے روکتا ہے طاقت
عوام کو تنگ کرتی ہے تو اختیار آگے بڑھ کر روک دیتا ہے
پولیس کے پاس
سزا وجزا کا اختیار نہیں اگر ہوتا تو شاید پوری دنیا کا نقشہ کچھ اور ہوتا
عدلیہ کے پاس
سزا دینے نہ دینے کا اختیار ہے لیکن انتظامیہ جیسی طاقت نہیں اگر انتظامی طاقت بھی
دے دی جائے تو بھی شاید دنیا کا نقشہ کچھ اور ہو
یہی وجہ کہ
عدلیہ کی اپنی کوئی پولیس نہیں ہوتی اور پولیس کی اپنی کوئی عدالت نہیں ہوتی
تھانہ کلچر کیا
ہے لوگوں کو تھانے میں تشدد کا نشانہ بنانا، ایف آئی آر درج نہ کرنا،غیرقانونی حراست اور لوگوں کو
جھوٹے مقدمات میں ملوث کرنا
صرف عدلیہ ہی
ایک ایسی طاقت ہے جو اس صورتحال کو کنٹرول کرسکتی ہے
پاکستان میں
تھانہ کلچر کے خاتمے کیلئے عدلیہ کا کردار اہم ہے عدلیہ ہی وہ ادارہ ہے جو تھانے
کی طاقت کے سامنے پل باندھ سکتا ہے
عدلیہ کی مسلسل
بیداری پولیس کو شہریوں کے خلاف طاقت کے استعمال سے روک دیتی ہے ریاستی تشدد کا
واحد علاج متحرک عدلیہ ہے
پاکستان کے 18
کروڑ شہری انتظامیہ کے رحم و کرم پر ہیں
کراچی کے دو
کروڑ شہری اپنے بنیادی حقوق کی پامالی کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں طاقتور پولیس
اور خفیہ ادارے اغواء برائے تاوان سمیت ہر قسم کے جرائم کے زریعے شہریوں کو نشانہ
بناتے ہیں صرف آگہی کافی نہیں پاکستان کی
آبادی کا 12 فیصد حصہ براہ راست پولیس اور رینجرز کے رحم و کرم پر ہے ایک پہلے سے
کہیں زیادہ آزاد مگر کمزور ترین عدلیہ شاید شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرنے میں
کامیاب نہیں ہورہی
کراچی میں
ریاستی آپریشن جاری ہے جو کہ ضرورت بھی ہے لیکن طاقت کو کنٹرول کرنے والا ادارہ عوام
کو وہ ریلیف نہیں دے پارہا جو کہ عوام کا بنیادی حق ہے
جو لوگ پاکستان
میں تھانہ کلچر کے خاتمے کی بات کرتے ہیں وہ توجہ فرمائیں کہ تھانہ کلچر کا خاتمہ
صرف اور صرف متحرک عدلیہ کرسکتی ہے جج کے پاس اختیار ہے کہ وہ تھانہ کلچر کا خاتمہ
کرسکے اور جج تو جج ہی ہوتا ہے
چاہے وہ سپریم
کورٹ کا ہو ہایئکورٹ کا ہو سیشن کورٹ سیشن جج ہو یا مجسٹریٹ وہ جج ہی ہوتا ہے اور
ان تمام کا مرتبہ بحثیت جج برابر ہے
تھانہ کلچر صرف
عدلیہ ہی ختم کرسکتی ہے اگر کرنا چاہے
No comments:
Post a Comment