Powered By Blogger

Friday 25 October 2013

عدلیہ کی اپنی کوئی پولیس نہیں ہوتی اور پولیس کی اپنی کوئی عدالت نہیں

اختیار اور طاقت دونوں کو ایک ہی جگہ جمع کرنا نقصان کا باعث ہوتا ہے
جہاں طاقت ہو وہاں اختیار بہیں ہوتا اور جہاں اختیار ہو وہاں طاقت نہیں ہوتی
پولیس طاقت ہے عدالت اختیار پولیس طاقت کے نشے میں مست ہے اور اختیار من مانی سے روکتا ہے طاقت عوام کو تنگ کرتی ہے تو اختیار آگے بڑھ کر روک دیتا ہے
پولیس کے پاس سزا وجزا کا اختیار نہیں اگر ہوتا تو شاید پوری دنیا کا نقشہ کچھ اور ہوتا
عدلیہ کے پاس سزا دینے نہ دینے کا اختیار ہے لیکن انتظامیہ جیسی طاقت نہیں اگر انتظامی طاقت بھی دے دی جائے تو بھی شاید دنیا کا نقشہ کچھ اور ہو
یہی وجہ کہ عدلیہ کی اپنی کوئی پولیس نہیں ہوتی اور پولیس کی اپنی کوئی عدالت نہیں ہوتی
تھانہ کلچر کیا ہے لوگوں کو تھانے میں تشدد کا نشانہ بنانا، ایف آئی آر  درج نہ کرنا،غیرقانونی حراست اور لوگوں کو جھوٹے مقدمات میں ملوث کرنا
صرف عدلیہ ہی ایک ایسی طاقت ہے جو اس صورتحال کو کنٹرول کرسکتی ہے
پاکستان میں تھانہ کلچر کے خاتمے کیلئے عدلیہ کا کردار اہم ہے عدلیہ ہی وہ ادارہ ہے جو تھانے کی طاقت کے سامنے پل باندھ سکتا ہے
عدلیہ کی مسلسل بیداری پولیس کو شہریوں کے خلاف طاقت کے استعمال سے روک دیتی ہے ریاستی تشدد کا واحد علاج متحرک عدلیہ ہے
پاکستان کے 18 کروڑ شہری انتظامیہ کے رحم و کرم پر ہیں
کراچی کے دو کروڑ شہری اپنے بنیادی حقوق کی پامالی کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں طاقتور پولیس اور خفیہ ادارے اغواء برائے تاوان سمیت ہر قسم کے جرائم کے زریعے شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں  صرف آگہی کافی نہیں پاکستان کی آبادی کا 12 فیصد حصہ براہ راست پولیس اور رینجرز کے رحم و کرم پر ہے ایک پہلے سے کہیں زیادہ آزاد مگر کمزور ترین عدلیہ شاید شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرنے میں کامیاب نہیں ہورہی
کراچی میں ریاستی آپریشن جاری ہے جو کہ ضرورت بھی ہے لیکن طاقت کو کنٹرول کرنے والا ادارہ عوام کو وہ ریلیف نہیں دے پارہا جو کہ عوام کا بنیادی حق ہے
جو لوگ پاکستان میں تھانہ کلچر کے خاتمے کی بات کرتے ہیں وہ توجہ فرمائیں کہ تھانہ کلچر کا خاتمہ صرف اور صرف متحرک عدلیہ کرسکتی ہے جج کے پاس اختیار ہے کہ وہ تھانہ کلچر کا خاتمہ کرسکے اور جج تو جج ہی ہوتا ہے
چاہے وہ سپریم کورٹ کا ہو ہایئکورٹ کا ہو سیشن کورٹ سیشن جج ہو یا مجسٹریٹ وہ جج ہی ہوتا ہے اور ان تمام کا مرتبہ بحثیت جج برابر ہے
تھانہ کلچر صرف عدلیہ ہی ختم کرسکتی ہے اگر کرنا چاہے

No comments: