Powered By Blogger

Tuesday 22 October 2013

درداں دی ماری جندڑی علیل اے

2005 میں یہ بات مشہور تھی کہ اگر کسی نے اپنے علاقہ ایس ایچ او سے ملاقات کرنی ہے تو صبح سویرے اپنے علاقے کے ڈسٹرکٹ کورٹ میں سیشن جج کی عدالت کے باہر اپنے علاقہ ایس ایچ او سے مل سکتا ہے ڈسٹرکٹ ایسٹ میں ڈاکٹر ظفر علی شیروانی،ساؤتھ میں آغا رفیق درانی،سینٹرل میں محمد نثار شیخ صاحب اور ویسٹ میں جاوید عالم صاحب یہ چاروں حضرات اپنے وقت کے مایہ ناز سیشن ججز تھے عزت اور احترام کا یہ عالم تھا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو جیسی عظیم شخصیت اس وقت کے سیشن جج آغا رفیق درانی صاحب جو آج کل چیف جسٹس فیڈرل شریعت کورٹ ہیں کا زاتی طور پر احترام کرتی تھیں ایسٹ میں آن لائن عدلیہ کا پائلٹ پروجیکٹ کامیابی سے چل رہا تھا نثار شیخ صاحب کا اپنا ایک طریقہ کار تھا ایک قدر چاروں سیشن ججز میں مشترک تھی اور وہ یہ کہ پولیس کی جانب سے عوام پر کوئی زیادتی برداشت کرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا کسی شہری پر تشدد کا مسئلہ ہو یا ایف آئی آر درج نہ کرنے کا مسئلہ ایس ایچ او کو بنفس نفیس آنا پڑتا تھا اور جتنا بااثر ایس ایچ او ہوتا تھا اتنا ہی اس کو سیشن کورٹ کی راہداری میں انتظار کرنا پڑتا تھا
ایک روایت موجود تھی کہ سیشن جج براہ راست بھی عوام الناس کی شکایات سنتے تھے پولیس کی جانب سے کوئی بہانہ قبول کرنے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا سیشن جج صبح سویرے سیٹ پر موجود ہوتا تھا اور سب سے آخر میں پولیس کا نمبر آتا تھا لیکن وقت پر آنا لازم تھا ایس ایچ کی غیر حاضری کی قیمت پولیس افسران کو ادا کرنی پڑتی تھی ایک بار نہیں کئی بار افسران بالا کو حکم عدولی پر ہتھکڑیاں لگا کر جیل روانہ کیا گیا عدلیہ کی عزت تھی تو وکلاء کی بھی عزت تھی
کراچی کے شہریوں کو آج بھی یاد ہوگا کہ کراچی میں پولیس نے "سی آئی اے" نام کی ایک خفیہ ایجنسی بنائی تھی سی آئی اے کراچی میں خوف تھرتھراہٹ کی علامت تھی سی آئی اے کیا تھی آج لوگ سوچ بھی نہیں سکتے صدر میں آج بھی سی آئی اے پولیس اسٹیشن موجود ہے اور وہ اس کا ہیڈ کوارٹر تھا بالآخر جسٹس صبیح الدین مرحوم نے اس کا نوٹس لیا اور سی آئی اے سے کراچی کو نجات ملی اسی دور میں پولیس کو بغیر یونیفارم گرفتاری اور ڈیوٹی سے روکا گیا
میں نے اپنی آنکھوں سے پولیس افسران کو سیشن ججز کے سامنے تھر تھر کانپتے ہوئے دیکھا انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر سیشن ججز سخت سے سخت نوٹس لیتے تھے
سیشن جج اتنا بڑا عہدہ ہے کہ اس عہدے کی طاقت کا اندازہ آج تک نہیں لگایا جاسکا کراچی میں 92 جیسا آپریشن ہوا اور ایسا سخت فوجی آپریشن کراچی کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا لیکن اس سخت اور مشکل ترین دور میں عدلیہ نے اپنا حق ادا کیا
سیشن ججز ایس ایچ اوز کے اتنے سخت خلاف کیوں تھے وہ جانتے تھے کہ اگر آج ان کے ساتھ رعایت کی گئی تو وہ کراچی کے شہریوں کا جینا حرام کردیں گے اگر ایس ایچ او انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرکے بھی عدالت کی راہداری میں پورا دن انتظار کی ذلت سے نہیں گزرے گا تو اس کو عدلیہ کی اہمیت کا اندازہ کیسے ہوگا اور اگر پولیس کے افسران جیل جاسکتے ہیں تو ایک ایس ایچ او کی کیا اوقات ہوگی
سیشن ججز کے ان تمام اقدامات کا فائدہ وکلاء کو ہوتا تھا عدلیہ کی عزت تھی اس کے ساتھ وکلاء کی بھی عزت تھی آج سے آٹھ سال پہلے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ پولیس ایک ایسے طاقتور مافیا کا روپ دھار لے گی جس کا علاج کسی کے پاس نہیں ہوگا 
اس وقت بھی کرپشن ہوتی تھی جو کہ پوری دنیا میں نظام کا حصہ ہے لیکن سیشن ججز کی جانب سے سختی تھی اسی دوران جاوید عالم صاحب ریٹائر ہوگئے   اور نثار صاحب جسٹس بنادیئے گئے 2007 کی تحریک چلی عدلیہ میں بھی افراتفری پھیلی عجب غدر کا عالم تھا مرزا غالب کی زبانی  جو 1857 کی تحریک آزادی کے بعد مسلمانوں پر حالات گزرے وہ سارا دکھ ایک شعر میں سمو دیا
کیسے کیسے ایسے ویسے ہوگئے
اور ایسے ویسے کیسے کیسے ہوگئے
حالات کی ستم ظریفی کہ مشرف دور میں وکلاء تحریک کے دوران کراچی کی عدلیہ کی تباہی کا سلسلہ شروع ہوا پکڑ دھکڑ ہوئی  جسٹس صاحبان حلف لینے کیلئے تیار نہ تھے تو پکڑ دھکڑ شروع ہوگئی ڈھونڈ ڈھانڈ کر لوگوں کو جسٹس بنایا گیا سیشن ججز کو جسٹس بنایا گیا اگرچہ وہ نظام کے تحت اہلیت رکھتے تھے لیکن ماضی میں سندھ ہایئکورٹ میں جسٹس بنانے کا ایک نظام رہا ہے جس نے بدترین آمریت میں اچھے جسٹس دیئے  لیکن ایمرجنسی کے دوران "کیسے کیسے "لوگوں کے ساتھ  ساتھ ایسے ویسے لوگ بھی جسٹس بنادیئے گئے عدلیہ کا وقار اور احترام داؤ پر لگا
عدلیہ بحال ہوئی تو ان لوگوں کی برطرفی ضروری تھی جن کو 3 نومبر کی ایمرجنسی کے دوران پکڑ دھکڑ کرکے جسٹس بنایا گیا تھا وہ تو نا اہل تھے اور کسی رعایت کے مستحق ہی نہ تھے لیکن ساتھی ججز کو جو ایک 67 سالہ نظام  کے تحت جسٹس آرہے تھے اور ان کو نظام نے جسٹس بنایا تھا ان کے پیچھے کوئی سفارش نہ تھی ان کی غلطی کہ انہوں نے ایک کمزور فیصلہ کیا تھا مشرف کا ایمرجنسی کے دوران حلف لیا تھا لیکن بحثیت جسٹس ان کی کارکردگی مثالی تھی اس کے ساتھ ساتھ سیشن ججز جن کو قسمت نے جسٹس بنایا لیکن وہ حقدار بھی تھے کیونکہ وہ اپنی باری کے منتظر تھے
تاریخ نے یہ بات ثابت کی کہ پی سی او ججز کے حوالے سے فیصلہ جذبات پر مبنی تھا کیونکہ سندھ میں عدلیہ میں ہر سطح پر افراتفری پھیلی  ڈسٹرکٹ کی سطح سے لیکر ہایئکورٹ تک عدلیہ بحالی کے بعد متاثر ہوئی دوسری طرف عوام اور وکلاء کی توقعات  جو عدلیہ سے وابستہ ہوچکی تھیں سندھ ہایئکورٹ میں ججز کا بحران سنگین صورت اختیار کرتا چلا گیا اچھے لوگ نہ ملے
لیکن اچھے لوگ مشکل سے ہی ملتے ہیں ایک مختصر واقعہ کہ سابق چیف جسٹس  محترم صبیح الدین احمد مرحوم نے اپنے وقت کے ایک مایہ ناز اور سئینر وکیل سے گزارش کی کہ آپ  اچھے قانون دان ہیں سندھ ہایئکورٹ کو آپ جیسے اچھے لوگوں کی ضرورت ہے  اچھے  قابل لوگوں کے آنے سے ادارہ مضبوط ہوگا لیکن سینئر وکیل نے کہا میں اپنے آپ کو اس  بھاری بوجھ کے قابل نہیں سمجھتا  مختصر یہ کہ نہ جانے کس طرح اچھے لوگ تلاش کیئے جاتے تھے اور عدلیہ کا حصہ بنایا جاتا تھا لیکن آج تو حالات کہاں سے کہاں نکل گئے عوامی توقعات پر پورا اترنے کے چکر میں جوڈیشل پالیسی لائی گئی اور جلد بازی میں کیس نمٹائے جانے کا سلسلہ شروع ہوا عدلیہ کی تباہی کا سلسلہ جاری رہا
کراچی میں 2005 والا ماحول واپس نہ آسکا ایک طرف  اکثر سیشن ججز ہایئکورٹ کا مزہ چکھ کر واپس آئے تھے ان کا شکوہ تھا کہ ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں نے ماتحت عدلیہ کو ذلیل و رسوا کیا سب سے زیادہ تباہی جناب  ڈاکٹرقمرالدین بوہرہ نے پھیلائی جس نے ویسٹ کی پوری عدلیہ کو تباہی کے آخری دھانے تک پہنچانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی بلکہ ڈسٹرکٹ ویسٹ کی عدلیہ کو اس ظالمانہ طریقے سے تباہ کیا گیا کہ آیئندہ آنے والے پانچ سال تک اس کی بحالی ممکن نہیں  یوں محسوس ہوتا تھا جیسے دشمن ملک کا جنرل دشمن کے کسی شہر کو تباہ و برباد کررہا ہے اب نہ جانے سپریم کورٹ کے انسانی حقوق سیل کا وہ کیا حشر کرتے ہیں
وہ زمانے ماضی کا حصہ بن گئے جب کراچی کے پولیس افسران ڈسٹرکٹ کورٹ کی راہداریوں میں اپنی باری کا انتظار کرتے تھے ایک ایسے وقت میں جب کراچی میں رینجرز اور پولیس کا مشترکہ آپریشن جاری ہے تو ہمارا بدترین المیہ یہ ہے کہ کراچی کے دوڈسٹرکٹ میں سیشن ججز ہی موجود نہیں ہیں   ڈسٹرکٹ ایسٹ  ضلع شرقی کی عدلیہ   میں سیشن جج کا  ہونا نہ ہونا برابر ہے کیونکہ وہاں ایک زندہ لاش کو پکڑ کر بٹھا دیاگیا ہے  کراچی کے  بدقسمت شہریوں کو 2014 تک انتظار کرنا ہوگا کیونکہ یہ زندہ لاش  اگست 2014  تک مسلط ہے  اور وہ چیمبر میں بیٹھ کر مفت کی تنخواہ وصول کریں گے جب سیشن ججز ہی موجود نہیں تو پولیس نہ جانے کس کس طریقے سے شہریوں پر ظلم کرتی ہوگی اب باقی کے جو دو ڈسٹرکٹ ہیں یعنی ویسٹ اور سینٹرل  ان کے ساتھ اب نہ جانے کیا ہوتا ہے وہاں کون آتا ہے 
کراچی کے وکلاء یاد کریں وہ وقت جب صبح سویرے سیشن کی عدالت لگ جاتی تھی سیشن جج کی عدالت کے باہر کراچی بھر کے ایس ایچ اوز لائن بنا کر کھڑے ہوتے تھے 
انسانی حقوق محفوظ تھے  
کراچی کے وکلاء کو چاہیئے کہ اب مزید خاموش نہ رہیں کل ہم نے ویسٹ کو خاموشی سے برباد ہوتے ہوئے دیکھا ہے اب کیا ہم ایسٹ میں بھی تباہی کا سلسلہ دیکھیں گے
ہایئکورٹ پر دباؤ ڈالیں کہ متحرک اور زندگی کے جزبوں سے سرشار ججز کو کراچی میں سیشن جج بنائیں کراچی کے تین اضلاع ڈسٹرکٹ ویسٹ،سینٹرل اور ایسٹ میں سیشن ججز کا نہ ہونا سندھ ہایئکورٹ کا   کراچی کے معصوم شہریوں پر بدترین ظلم ہے
 بار سے گزارش ہے کہ تینوں ڈسٹرکٹ میں کم ازکم ایسے لوگوں کو سیشن جج بنانے کیلئے سندھ ہایئکورٹ پر دباؤ ڈالیں جو کم از کم زندہ ہوں
عدلیہ کے حالات دیکھ کر بے اختیار یہ شعر زبان پر آتا ہے

درداں دی ماری جندڑی علیل اے

No comments: