Powered By Blogger

Wednesday 30 October 2013

جدید تفتیش

اگر ہم اس حقیقت پر غور کریں کہ 1552ء سے تمام ترقی یافتہ قوموں نے نہ صرف جائے وقوع کو محفوظ کرنے کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے بلکہ موت کی وجوہات کے تعین اور اس میں ملوث ملزموں کی گرفتاری کیلئے جدید ترین فورینزک طریقے ایجاد کرنے پر اب تک اربوں ڈالر خرچ کئے ہیں تو سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی جائے شہادت کے دھوئے جانے کو سیدھے سادھے لفظوں میں گناہ کبیرہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ اب جبکہ بے نظیر کے قتل کی وجوہات پردہ اسرارمیں ہیں
 میڈیا سے منسلک افراد نےایک تفصیلی ریسرچ کی جس سے معلوم ہوا کہ جائے وقوع کو محفوظ کرنے اور شواہد جمع کرنے کو اہمیت دیتے ہوئے مختلف یورپی افواج کے میڈیکل پریکٹیشنرز نے 16 ویں صدی میں موت کی وجوہات جاننے کیلئے معلومات جمع کرانا شروع کیں۔ یہ بات انتہائی شرمناک ہے کہ اقوام متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن نے راولپنڈی میں بی بی کی جائے شہادت کے دھوئے جانے پر نہ صرف بہت سے شدید اعتراض کئے بلکہ جائے وقوع کیساتھ ہونے والے برے سلوک اور وہاں سے شواہد اکٹھے کرنے کیلئے پنجاب پولیس کے طریقہ کار کے پس پردہ ممکنہ وجوہات پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ 460 سال قبل معروف فرانسیسی آرمی سرجن Ambroise Pare نے ایک پر تشدد موت کے اندرونی اعضا پر اثرات کا مطالعہ کرکے فورینزک سٹڈی کا باضابطہ آغاز کیا تھا۔ 18 ویں صدی کے آخر تک پورے یورپ میں اس بات پر زور دیا جانے لگا کہ فوجداری تفتیش میں منطق اور طریقہ کار استعمال کیا جائے۔ پھر دو اطالوی سرجنز Fortunato Fidelis اور Paolo Zacchia نے جدید پتھالوجی کی بنیاد رکھی۔ 1780ء سے ان موضوعات پر تحریریں پرنٹ ہونے لگیں اور فورینزک سائنسدانوں اور طلبا کی توجہ حاصل کرنے لگے۔ 1876ء میں ایک سویڈش کیمیا دان Carl Wilhelm Scheele نے لاشوں میں آرسینک زہر کی موجودگی کا پتہ چلانے کے طریقے ایجاد کئے۔ 1784ء میں انگلینڈ میں ایک شخص کو پستول سے دوسرے شخص کو قتل کرنے پر سزا دی گئی۔ جب مقتول کے جسم کا معائنہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ مقتول کے سر کے زخم سے ملنے والا ڈاٹ اسی پھٹے ہوئے اخباری کاغذ کا بنا ہوا تھا جو قاتل کی جیب سے برآمد ہوا تھا۔ 1806ء میں ایک جرمن کیمیا دان Valentin Ross نے متاثرہ شخص کے معدے کی دیواروں میں آرسینک زہر کی موجودگی معلوم کرنے کے طریقے ایجاد کئے اور 1836 میں ایک انگریزی کیمیا دان James Marsh نے قتل کیس میں اس بات کی تصدیق کیلئے کہ آرسینک موت کی وجہ ہے کیمیائی طریقہ استعمال کیا۔ 1816ء میں انگلینڈ میں ایک زرعی مزدور کیخلاف ایک خاتون ملازمہ کے قتل کے الزام میں کارروائی کی گئی۔ خاتون کو کم گہرے تالاب میں ڈبویا گیا اور انکے جسم پر شدید حملوں کے نشانات تھے۔ پولیس کو تالاب کے قریب قدموں کے اور گیلی زمین پر کارڈرائے کپڑے کے نشانات نظر آئے۔ وہاں پر گندم اور بھوسہ بھی پڑا تھا۔ نزدیک ہی گندم تھریشر کرنے میں مصروف زرعی مزدور کے جانگیے کا معائنہ کیا تو وہ بالکل ویسا ہی تھا جیسے نشانات تالاب کے قریب موجود تھے۔ 20 ویں صدی میں بہت سے برطانوی پتھالوجسٹس نے برطانیہ میں فورینزک سائنس کے نئے طریقے ایجاد کئے جن سے اس وقت کے تفتیش کاروں کو سہولت ہوئی۔ 1909ء میں یورپ میں فورینزک سائنس کا پہلا اسکول قائم ہوا جس میں حیاتیاتی شواہد‘ نشانات‘ فنگر پرنٹس‘ جوتوں کے نشانات‘ گولیوں کے نشانات‘ آتشیں اسلحہ اور مختلف اوزاروں کے نشانات کے معائنے اور ان کا تقابل کرنے کے بارے میں پڑھایا جاتا تھا۔ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ شماریاتی فورینزک کو اہمیت دی جانے لگی جس میں فورینزک معائنے میں مدد کیلئے اعدادو شمار اور سافٹ ویئر تیار کئے جاتے ہیں۔ پھر ڈیجیٹل فورینزک میدان میں آگئی جس سے مخبروں کو بڑی مدد ملی۔ اس میں الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا سے ڈیٹا حاصل کرنے کیلئے ثابت شدہ سائنسی طریقے استعمال کئے جاتے ہیں۔ لیکن یہاں پر معاملات رک نہیں گئے بلکہ فورینزک اینتھراپالوجی نے قتل کی اندھی وارداتوں کے سراغ میں اپنی اہمیت ثابت کی۔ اس میں انسانی ڈھانچے کی شناخت کیلئے فزیکل اینتھراپالوجی کا اطلاق کیا جاتا ہے۔ فورینزک ڈی این اے تجزیے کی ایجاد فورینزک ریسرچ میں ایک تاریخی کامیابی ہے۔ فورینزک اینٹامالوجی انسانی باقیات کے آس پاس موجود حشرات الارض کے تجزیے سے متعلق ہے جس میں موت کے وقت اور جگہ کا تعین کیا جاتا ہے جبکہ فورینزک جیالوجی زمین‘ معدنیات اور پٹرولیم کے شواہد سے متعلق ہے۔ سائنس کی ترقی کیساتھ ساتھ دنیا بھر کے سائنسدانوں نے فورینزک پتھالوجی کے میدان کو کھنگال ڈالا۔ اس میں قانونی انکوائری کیلئے موت یا زخم کی وجوہات کا تعین کرنے کیلئے میڈیسن اور پتھالوجی کے اصولوں کا اطلاق کیا جاتا ہے۔ وقت کیساتھ ساتھ فورینزک ویڈیو تجزیے بھی ایجاد ہوئے جس میں جائے وقوع کے ویڈیو مناظر کا تجزیہ کیا جاتا ہے اور ان کا تقابل کیا جاتا ہے۔ سب سے آخر میں لیکن انتہائی اہم بات یہ ہے کہ شیشہ‘ رنگ‘ دھاگوں اور بالوں کے تجزیے اور تقابل کیلئے نشانات شواہد کے تجزیے کا طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔

لیکن پاکستان میں بہت کم تفتیش کیلیئے جدید طریقے استعمال کیئے جاتے ہیں

No comments: