Powered By Blogger

Sunday 27 October 2013

شہری حقوق کے تحفظ کیلئے سول سوسائٹی وکلا بار اسہوسی ایشنز اور عدلیہ کا کردار :تحریر صفی الدین اعوان

لاء سوسائٹی پاکستان کا ایک بنیادی مطالبہ ہے "غیر قانونی حراست کا مکمل خاتمہ" ہم اپنے گروپ کے ساتھ مل کر 2010 میں مجسٹریٹ آن ڈیوٹی کا نوٹیفیکیشن سندھ ہائی کورٹ سے کروا چکے ہیں جس کے تحت اتوار اور دیگر تعطیلات کے دوران ہر ضلع میں ایک مجسٹریٹ بمعہ اپنے اسٹاف کے اپنے فرائض سرانجام دیتا ہے اور ایمرجنسی نوعیت کے احکامات جاری کرتا ہے قابل ضمانت جرائم میں ضمانت کے احکامات جاری کرتا ہے
بدقسمتی سے ضابطہ فوجداری میں گنجائیش موجود نہ تھی لیکن پاکستان کے بہت سے شہروں خصوصاً کراچی میں یہ گنجائیش پیدا کردی گئی ہے کہ غیر قانونی حراست سے متعلق " حبس بے جا" کی درخواست صرف کورٹ کی ٹائمنگ میں دی جاسکتی ہے جس کے زریعے کورٹ کا بیلف تھانے،کسی مکان یا حراستی مرکز میں جاکر ریکارڈ چیک کرسکتا ہے کہ متعلقہ شخص کو ملکی قوانین کے تحت زیرحراست رکھا گیا ہے اور گرفتاری کے وقت آئین پاکستان اور پولیس رولز یا دیگر ضوابط کے تحت وہ تمام قانونی تقاضے پورے کیئے گئے ہیں یا نہیں جس کے بعد کورٹ پولیس افسران یا دیگر اداروں کے خلاف ایکشن لے سکتی ہے
میرا زاتی مشاہدہ ہے کہ پاکستان کے چھوٹے شہروں میں آج بھی سیشن جج کے گھر جاکر یہ درخواست دی جاسکتی ہے جس پر کاروائی ہوتی ہے
بڑے شہروں میں "حبس بے جا" کی درخواست  صرف کورٹ کی ٹائمنگ میں دی جاسکتی ہے
2005 میں کراچی کے ضلع شرقی میں آن لائن کورٹس کا تجربہ کامیاب رہا تھا جس کے تحت کوئی بھی شہری اپنے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے خلاف بزریعہ ای میل سیشن جج سے رابطہ کرسکتا تھا مزید یہ کہ دن گیارہ بجے وہ اس قسم کی درخواست ڈسٹرکٹ جج کو براہ راست بھی دے سکتا تھا اس نظام کا فائدہ یہ بھی تھا کہ سیشن جج دنیا کے کسی بھی کونے سے غیرقانونی حراست کے خاتمے کیلئے بیلف مقرر کرسکتا تھا اور یہ بات ریکارڈ کا حصہ ہے کہ ضلع شرقی کے سیشن جج نے امریکہ سے بزریعہ ای میل قانونی ضابطہ پورا کرتے ہوئے بیلف مقرر کیا جس نے رات دوبجے جاکر غیر قانونی حراست کا خاتمہ کیا
گزشتہ دنوں اینٹٰی کنٹرول وائلنس سیل (اے وی سی سی) کے ہیڈ کوارٹر پر چھاپے کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ پانچ افراد کو اس سیل نے 20دن سے غیرقانونی طور پر حراست میں رکھا ہوا تھا جن کو مجسٹریٹ نے جا کر رہا کیا
کیا یہ بات حیرت انگیز نہیں کہ اکیسویں صدی میں اتنا بڑا ظلم جدید ٹیکنالوجی کے دور میں سوشل میڈیا کے دور میں پولیس کی خفیہ ایجنسی کتنی دیدہ دلیری سے شہریوں کو اغوا کرکے اپنے ٹارچر سیل میں بند کررہی ہے
اے وی سی سی وہ جدید ترین ادارہ ہے جو پاتال سے ملزم ڈھونڈ کر نکال سکتا ہے اور ان کے پاس تفتیش اور ملزمان کا سراغ لگانے کا ایسا جدید ترین نظام ہے جس کے زریعے جدید ٹیکنالوجی کے زریعے شاطر سے شاطر ملزم قانون کے شکنجے سے بچ نہیں سکتا یہاں تک کہ ملزم دنیا کے کسی بھی حصے میں ہو اگر "اے وی سی سی" پکڑنا چاہے تو وہ بچ نہیں سکتا
اگر آپ کو کبھی اے وی سی سی کا دورہ کرنے کا موقع ملاتو جدید ٹیکنالوجی کے زریعے جرم کا سراغ لگانے کا طریقہ کار دیکھ کر عقل دنگ رہ جائے گی کہ دنیا میں ٹیکنالوجی کتنی ترقی کرچکی ہے
اگر اے وی سی سی مؤثر کنٹرول کے تحت کام کرے تو یہ کراچی کے شہریوں کے لیئےایک بہت بڑا اثاثہ ہے
اگرچہ پاکستان میں پنجاب پولیس کی "مخصوص" شہرت ہے لیکن ہم یہ بات ذمہ داری سے کہتے ہیں کہ کراچی کی پولیس کے شعبہ تفتیش میں ایسے ایسے قابل پولیس افسران موجود ہیں جو کسی بھی طرح اسکاٹ لینڈ یارڈ کے تفتیشی افسران سے کم نہیں لیکن صرف سیاسی مداخلت کی وجہ سے یہ ناکام ہوتے ہیں
اب ضرورت محسوس ہورہی ہے کہ پولیس کا محکمہ اسقدر آزاد ہو کہ کوئی سیاسی شخصیت ان کی کارکردگی پر اثرانداز نہ ہوسکے صرف عدلیہ ان کو اختیارات کے غلط استعمال سے روکے لیکن ایسا کرنے کیلئے عدلیہ کو ایسا مؤثر نظام دینا ہوگا جس کے تحت وہ 24 گھنٹے پولیس کو اختیارات کے غلط استعمال سے روک سکیں
جب سے  عدالتی معاملات افراتفری کا شکار ہوئے خصوصاً عدالتی بائیکاٹ اور کورٹ کی آئے دن کی ہڑتالوں کے بعد وکلاء اور سول سوسائٹی کی "ڈیمانڈ" سائڈ شہری حقوق کے حوالے سے کمزور ہوئی تو اے وی سی سی جیسے جدید ترین ادارے اور پولیس کے دیگر خفیہ اداروں  میں ایک نیا کام شروع ہوا اور وہ یہ تھا کہ اغواء برائے تاوان کا سلسلہ پولیس اور اس کے خفیہ ادارے شہریوں کو اغوا کرتے ہیں اور تاوان لیکر رہا کرتے ہیں
صرف اے وی سی سی ہی نہیں پولیس کی کئی برانچیں اس کام میں ملوث ہیں طالبان کے حملوں کو جواز بنا کر عدالتی بیلف یا مجسٹریٹ کو پولیس کی خفیہ برانچوں داخلے سے روکا جانا، ریکارڈ چیک کرنے کی اجازت نہ دینا اور عدالتی بیلف سے شناخت طلب کرکے چھاپوں سے روکنا ریکارڈ کا حصہ ہے
کراچی میں پولیس کی خفیہ برانچوں کے کرتا دھرتا کہتے سنائی دیتے ہیں کہ ملزمان کو عدالتوں نے تو ویسے بھی چھوڑ دینا ہے کیوں نہ ہم چھوڑ دیں لیکن چھوڑیں گے رشوت لیکر، اب یہ الزام تو پرانا اورفرسودہ ہوچکا کہ پولیس جرائم پیشہ افراد کی پشت پناہی کرتی ہے
کافی معاملات میں ہم عدلیہ کو زیربحث لاتے ہیں لیکن سب سے اہم کردار وکلاء کا ہی ہے ہماری ڈیمانڈ سائڈ کتنی کمزور ہے ہم میں سے کتنے وکلاء ایسے معاملات کو زیربحث لاتے ہیں ہماری جانب سے مطالبات پیش نہیں کیئے جاتے ہیں ہمارے پاس کوئی ایسا چارٹر آف ڈیمانڈ موجود نہیں جس کی بنیاد پر ہم عدلیہ کو دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی بات کرسکتے ہیں
صرف کراچی میں کتنے دن ہوگئے دو اضلاع میں سیشن جج موجود ہی نہیں اور سیشن کورٹس کی عدالتوں میں ایک عجیب وغریب قسم کی افراتفری جاری ہے تو کتنے وکلاء ہیں جنہوں نے آواز بلند کی ہے
اور ہم جو آواز بلند کرتے ہیں اور کررہے ہیں وہ آسان نہیں اس کی ایک بھاری قیمت ہم نے ادا کی ہے کررہے ہیں اور کرتے رہیں گے لیکن جہاں ہماری ذات نشانہ ہوگی وہ ہم برداشت کررہے ہیں کرتے رہیں گے خاموشی سے برداشت کریں گےلیکن جہاں شہری حقوق متاثر ہونگے وہاں خاموشی ممکن نہیں
عدلیہ کا وقار اہمیت رکھتا ہے لیکن شہریوں کے حقوق بہت اہمیت کے حامل ہیں شہریوں کے بنیادی حقوق کے مقابلے میں عدالتی وقار کوئی اہمیت نہیں رکھتا
عدالتی وقار کا بھرم شہریوں کے حقوق سے قائم ہے اگر شہریوں کے حقوق محفوظ ہیں اگر عدلیہ اپنی حدود میں رہنے والے شہریوں کے بنیادی حقوق کی حفاظت کی ضامن بن جائے تو اس سے بڑا وقار عدلیہ کیلئے کوئی ہونہیں سکتا اور جس عدالتی حدود میں عدلیہ اپنے شہریوں کے حقوق عزت اور آبرو کی  حفاظت نہ کرسکے ان کو انصاف نہ دے سکے تو عدلیہ کا وقار تو خود بخود ختم ہوجاتا ہے
پاکستان کے موجودہ نازک  حالات میں سیشن جج کا عہدہ ایک  اہم ترین عہدہ بن چکا ہے یہی ایک اہم شخصیت ہوتی ہے  جو شہریوں کےبنیادی انسانی حقوق کی حفاظت کیلئے اہم کردار ادا کرسکتا ہے جب شہری حقوق کی پامالی ہوتی ہے تو کہیں خودکش بمبار جنم لیتے ہیں کہیں جرائم پیشہ گینگ  اپنی الگ ریاست بناکر ریاست کی رٹ کو چیلنج کرتے ہیں کہیں علیحدگی کی تحریکیں جنم لیتی ہیں کہیں ایسے جرائم پیشہ گروپس جنم لیتے ہیں جو اپنی غربت کا زمہ دار معاشرے کے مختلف طبقات کو ٹہرا کر معاشرے سے ہی انتقام لینا شروع کردیتے ہیں صرف کراچی میں ہی شاید پولیس کے مظالم کا شکار ایسے گروپس موجود ہیں جو صرف پولیس کونشانہ بنارہےہیں اور یہ سلسلہ گزشتہ ایک سال سے جاری ہے
سیشن ججز کا کردار پہلے سے زیادہ اہم بن چکا ہے اور مجسٹریٹ کا عہدہ اتنی اہمیت کا حامل ہے کہ وہ پاکستان کے ایک عام شہری کو ان زیادتیوں سے نجات دلا سکتے ہیں جن کا اکثر وہ شکار رہتے ہیں
سپریم کورٹ،ہایئکورٹ،سیشن ججزاور مجسٹریٹ یہ سب مل کر ہی پاکستانی معاشرے کو انصاف فراہم کرسکتے ہیں
صرف بار ایسوسی ایشنز ہی وہ ادارہ ہیں جو ان کی سمت درست کرسکتی ہے


:تحریر صفی الدین اعوان

No comments: