چیف جسٹس افتخار
محمد چوہدری اس لحاظ سے پاکستان کے خوش قسمت ترین انسان ہیں کہ اللہ نے ان کو بے
پناہ عزت سے نوازا چیف جسٹس پاکستان نے سوموٹو ایکشن کے زریعے شہرت حاصل کی عوامی
سطح پر کافی بنیادی نوعیت کے مسائل سوموٹو ایکشن کے زریعے حل ہوئے چیف صاحب نے کوشش کی ریاست کے مقتدر افراداپنے فرائض آئین پاکستان کے مطابق
سرانجام دیں ملکی تاریخ میں پہلی بار لوٹی
ہوئی دولت کو واپس لایا گیا اور لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کا تخمینہ کھربوں روپے
میں لگایا گیا ہے کئی سوموٹو ایکشنز چیف صاحب کیلئے شرمندگی کا باعث بھی بنے
کیونکہ واقعات مکمل طور جھوٹ ثابت ہوئے جس میں سوات میں طالبان کی جانب سے ایک
عورت کو کوڑے مارنے کا واقعہ اور
نوشہروفیروز میں حوالات میں بند دوقیدیوں کو ایس ایچ او کی جانب سے ریچھ اور کتا بنا کر ان کی لڑائی
کروانے کی ہے ان واقعات میں میڈیا چینل ملوث تھے
مختصر یہ ہے کہ
9 مارچ 2007 کو مشرف اور چیف جسٹس پاکستان کا خوفناک ٹکراؤ ہوا جسٹس سعیدالزمان کی
نسبت افتخار محمد چوہدری لوہے کا ثابت چنا ثابت ہوئے وکلاء تحریک کا آغاز ہوا آمریت کمزور ہوئی مشرف
وکلاء کا مقابلہ نہ کرسکا بلکہ ان کو جتنا دبایا گیا یہ اتنا ہی ابھر کر سامنے آئے
پنجاب تحریک کا مرکز تھا اور اصل قائد علی احمد کرد ٹہرا پورے پاکستان کے وکلاء نے
جانی اور مالی قربانیاں دیں آخر کار چیف جسٹس بحال ہوئے لیکن وکلاء چیف کی بحالی
کو ایک ایسا انقلاب سمجھ رہے تھے جس نے زندگی کے ہر شعبے میں اثرانداز ہونا تھا
اس حوالے سے ایک
بار پھر پنجاب خوش قسمت رہا اگرچہ پنجاب کا چیف جسٹس شریف فیملی کا درباری اور خوشامدی تھا لیکن وہاں کے جیالے وکلاء نے
جسٹس شریف کو ایک حد تک محدود رکھا بعد
ازاں باضمیر لوگ چیف جسٹس بنے اور جسٹس شریف کو موقع نہ ملا کہ وہ متبادل درباری
جسٹس چھوڑ کرجاتا
اگرچہ وکلاء کے
اس طرز عمل کو وکلاء گردی کا نام دیا لیکن پنجاب کے وکلاء جانتے تھے کہ مضبوط بار
ہی انصاف کی فراہمی کو یقینی بناتی ہے پنجاب کے وکلاء کا انصاف دیکھئے کہ جسٹس
قیوم تک کو معاف نہیں کیا اگرچہ میڈیا
رپورٹس کی بنیاد پر چیف صاحب کو بھی تشویش ہوئی لیکن پنجاب میں
"ڈیمانڈسائڈ" بہت مضبوط ہے یہی وجہ ہے کہ وہاں کرپشن کرنا آسان نہیں ہے چند روز قبل پنجاب کی عدلیہ نے اپنے ایک مجسٹریٹ
کو ہتھکڑی لگوا کر ثابت کردیا کہ کہ وہ
کرپشن کے خاتمے کیلئے کسی حد تک جاسکتے ہیں
بدقسمتی سے میرے
پاس کے پی کے اور بلوچستان کے حوالے سے
زیادہ مستند انفارمیشن نہیں ہے لیکن بلوچستان میں بظاہر حالات عدلیہ کے حوالے سے ٹھیک ہیں وکلاء عدلیہ سے
کافی مطمیئن تھے
زیادہ مسائل
صوبہ سندھ اور سندھ کے بڑے شہروں کراچی،حیدرآباد اور سکھر میں پیداہوئے کیونکہ
یہاں پر پی سی اوججز کے حوالے سے سپریم
کورٹ کے فیصلے سے ہایئکورٹ میں ججز کا سنگین بحران پیدا ہوا جس کی وجہ سے وکلاء اور سائیلین کو سنگین مسائل
کا سامنا کرنا پڑا 2011 سے لیکر 2012 تک کا دور سنگین ترین دور تھا سندھ ہایئکورٹ
ججز کی کمی کی وجہ سے شدید مسائل کا شکار تھی
بہت مشکل سے جس
طرح بھی ہوا یہ مسئلہ حل ہوا پہلے
"اہل" لوگ نہیں مل رہے تھے جب "اہل" لوگ ملے تو لوگ نااہلوں
کو بھول گئے اور اب سندھ کے وکلاء پریشان
ہیں کہ آگے کیا ہوگا
یہاں ڈیمانڈ
سائڈ بھی کمزور ہے پنجاب کی نسبت یہاں وکلاء گردی کا رجحان نہیں ہے
چیف صاحب زیادہ
تر سپریم کورٹ کے بنچ نمبر ایک میں مصروف رہے
اس کو دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا خوب سوموٹو ایکشن لیئے زرادری صاحب نے چیف صاحب کو ٹرک کی بتی کے
پیچھے لگادیا اور ٹرک کو دلی تک لے گئے انتظامیہ کو کنٹرول کرتے کرتے چیف صاحب کو
یاد ہی نہیں رہا کہ عدلیہ صرف سپریم کورٹ کی بنچ کا نام نہیں ہایئکورٹ سے لیکر
سیشن کورٹ اور مختلف ٹریبونلز سے لیکر سول
جج کی عدالت تک ہر روز لاکھوں افراد آتے ہیں اور مسائل کا شکار رہتے ہیں جوڈیشل پالیسی تو دی لیکن عمل درآمد کرانے والا
ٹولہ خود ایک مافیا تھا
آج سپریم
کورٹ کے بنچ نمبر ایک کے علاوہ ملک میں
ایک ایسی عدلیہ موجود ہے جس سے عوام مایوس ہیں
خاص طور پر صوبہ
سندھ اور کراچی میں ایسی عدلیہ موجود ہے جسے عدلیہ کہنا عدلیہ کو گالی دینے کے
مترادف ہے
کاش چیف صاحب
نے ڈسٹرکٹ سطح کی عدلیہ کو مضبوط بنایا
ہوتا
No comments:
Post a Comment