Powered By Blogger

Thursday 17 October 2013

کاش چیف صاحب نے ڈسٹرکٹ سطح کی عدلیہ کو مضبوط بنایا ہوتا

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اس لحاظ سے پاکستان کے خوش قسمت ترین انسان ہیں کہ اللہ نے ان کو بے پناہ عزت سے نوازا چیف جسٹس پاکستان نے سوموٹو ایکشن کے زریعے شہرت حاصل کی عوامی سطح پر کافی بنیادی نوعیت کے مسائل سوموٹو ایکشن کے زریعے حل ہوئے   چیف صاحب نے کوشش کی ریاست  کے مقتدر افراداپنے فرائض آئین پاکستان کے مطابق سرانجام دیں  ملکی تاریخ میں پہلی بار لوٹی ہوئی دولت کو واپس لایا گیا اور لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کا تخمینہ کھربوں روپے میں لگایا گیا ہے کئی سوموٹو ایکشنز چیف صاحب کیلئے شرمندگی کا باعث بھی بنے کیونکہ واقعات مکمل طور جھوٹ ثابت ہوئے جس میں سوات میں طالبان کی جانب سے ایک عورت کو کوڑے مارنے کا واقعہ  اور نوشہروفیروز میں حوالات میں بند دوقیدیوں کو ایس ایچ او کی  جانب سے ریچھ اور کتا بنا کر ان کی لڑائی کروانے کی ہے ان واقعات میں میڈیا چینل ملوث تھے
مختصر یہ ہے کہ 9 مارچ 2007 کو مشرف اور چیف جسٹس پاکستان کا خوفناک ٹکراؤ ہوا جسٹس سعیدالزمان کی نسبت افتخار محمد چوہدری لوہے کا ثابت چنا ثابت ہوئے  وکلاء تحریک کا آغاز ہوا آمریت کمزور ہوئی مشرف وکلاء کا مقابلہ نہ کرسکا بلکہ ان کو جتنا دبایا گیا یہ اتنا ہی ابھر کر سامنے آئے پنجاب تحریک کا مرکز تھا اور اصل قائد علی احمد کرد ٹہرا پورے پاکستان کے وکلاء نے جانی اور مالی قربانیاں دیں آخر کار چیف جسٹس بحال ہوئے لیکن وکلاء چیف کی بحالی کو ایک ایسا انقلاب سمجھ رہے تھے جس نے زندگی کے ہر شعبے میں اثرانداز ہونا تھا
اس حوالے سے ایک بار پھر پنجاب خوش قسمت رہا اگرچہ پنجاب کا چیف جسٹس شریف فیملی کا درباری  اور خوشامدی تھا لیکن وہاں کے جیالے وکلاء نے جسٹس شریف کو ایک حد تک محدود رکھا  بعد ازاں باضمیر لوگ چیف جسٹس بنے اور جسٹس شریف کو موقع نہ ملا کہ وہ متبادل درباری جسٹس چھوڑ کرجاتا
اگرچہ وکلاء کے اس طرز عمل کو وکلاء گردی کا نام دیا لیکن پنجاب کے وکلاء جانتے تھے کہ مضبوط بار ہی انصاف کی فراہمی کو یقینی بناتی ہے پنجاب کے وکلاء کا انصاف دیکھئے کہ جسٹس قیوم   تک کو معاف نہیں کیا اگرچہ میڈیا رپورٹس کی بنیاد پر چیف صاحب کو بھی تشویش ہوئی لیکن پنجاب میں "ڈیمانڈسائڈ" بہت مضبوط ہے یہی وجہ ہے کہ وہاں کرپشن کرنا آسان نہیں ہے  چند روز قبل پنجاب کی عدلیہ نے اپنے ایک مجسٹریٹ کو ہتھکڑی لگوا کر ثابت  کردیا کہ کہ وہ کرپشن کے خاتمے کیلئے کسی حد تک جاسکتے ہیں
بدقسمتی سے میرے پاس  کے پی کے اور بلوچستان کے حوالے سے زیادہ مستند انفارمیشن نہیں ہے لیکن بلوچستان میں بظاہر حالات  عدلیہ کے حوالے سے ٹھیک ہیں وکلاء عدلیہ سے کافی مطمیئن تھے
زیادہ مسائل صوبہ سندھ اور سندھ کے بڑے شہروں کراچی،حیدرآباد اور سکھر میں پیداہوئے کیونکہ یہاں  پر پی سی اوججز کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے سے ہایئکورٹ میں ججز کا سنگین بحران پیدا ہوا  جس کی وجہ سے وکلاء اور سائیلین کو سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑا 2011 سے لیکر 2012 تک کا دور سنگین ترین دور تھا سندھ ہایئکورٹ ججز کی کمی کی وجہ سے شدید مسائل کا شکار تھی
بہت مشکل سے جس طرح بھی  ہوا یہ مسئلہ حل ہوا پہلے "اہل" لوگ نہیں مل رہے تھے جب "اہل" لوگ ملے تو لوگ نااہلوں کو بھول گئے اور اب سندھ کے وکلاء  پریشان ہیں کہ آگے کیا ہوگا
یہاں ڈیمانڈ سائڈ بھی کمزور ہے  پنجاب کی نسبت  یہاں وکلاء گردی کا رجحان نہیں ہے
چیف صاحب زیادہ تر سپریم کورٹ کے بنچ نمبر ایک میں مصروف رہے  اس کو دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا خوب سوموٹو ایکشن لیئے   زرادری صاحب نے چیف صاحب کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگادیا اور ٹرک کو دلی تک لے گئے انتظامیہ کو کنٹرول کرتے کرتے چیف صاحب کو یاد ہی نہیں رہا کہ عدلیہ صرف سپریم کورٹ کی بنچ کا نام نہیں ہایئکورٹ سے لیکر سیشن کورٹ اور مختلف ٹریبونلز سے لیکر  سول جج کی عدالت تک ہر روز لاکھوں افراد آتے ہیں اور مسائل کا شکار رہتے ہیں  جوڈیشل پالیسی تو دی لیکن عمل درآمد کرانے والا ٹولہ خود ایک مافیا تھا
آج سپریم کورٹ  کے بنچ نمبر ایک کے علاوہ ملک میں ایک ایسی عدلیہ موجود ہے جس سے عوام مایوس ہیں
خاص طور پر صوبہ سندھ اور کراچی میں ایسی عدلیہ موجود ہے جسے عدلیہ کہنا عدلیہ کو گالی دینے کے مترادف ہے
کاش چیف صاحب نے  ڈسٹرکٹ سطح کی عدلیہ کو مضبوط بنایا ہوتا 

No comments: