Powered By Blogger

Wednesday 30 October 2013

پاکستان میں کیس مینیجمنٹ کا جدید نظام نہ ہونے کی وجہ سےمعصوم شہریوں کو زہنی اذیت دینے کا جو سب سے بڑا ٹارچر سیل ہے اس کا نام "ماتحت عدلیہ" ہے :تحریر صفی الدین اعوان

 اعلی عدلیہ کی غفلت کی وجہ سے  اور پاکستان میں  کیس مینیجمنٹ کا جدید نظام نہ ہونے کی وجہ سےمعصوم شہریوں کو زہنی اذیت دینے کا جو سب سے بڑا ٹارچر سیل ہے اس کا نام "ماتحت عدلیہ" ہے یعنی ڈسٹرکٹ کورٹس جہاں پاکستان کے کروڑوں شہری  کیس مینیجمنٹ کا جدید نظام نہ ہونے کی وجہ سےاس ٹارچر سیل میں اذیت سے گزارے جاتے ہیں اس ٹارچر سیل میں گزشتہ دنوں ایک ایسے واقعے کی مکمل تفصیلات ملی ہیں جو یہاں کے معمولات میں شامل ہے
واقعہ یہ تھا کہ آج سے چند ماہ قبل ایک مجسٹریٹ کی عدالت میں موجود تھا تو ایک دوسال پرانے 506-بی کے کیس میں 4 ملزمان پیش ہوئے ایف آئی آر لیاقت آباد تھانے میں رجسٹر تھی ایک وکیل صاحب جج سے الجھ رہے تھے معلوم ہوا کہ 2 ملزمان کا وکیل کہہ رہا ہے کہ ان کے ملزمان کو 249 –اے کے تحت "باعزت" بری نہ کیا جائے میں نے ایسی کوئی درخواست کورٹ کو نہیں دی دوسرے ملزمان کے وکیل نے دی ہے ان ملزمان کو کورٹ چاہے توباعزت بری کردے ہم تو کیس چلانا چاہتے ہیں میرے ملزمان کو باعزت بری نہ کیا جائے مجسٹریٹ صاحب نے کہا کہ آپ کورٹ کواس طرح کی کوئی ہدایت نہیں دے سکتے یہ کورٹ کا استحقاق ہے کہ وہ باعزت بری کردے یا ٹرائل چلائے مجھے حیرت ہوئی کہ وکیل صفائی یہ کیسے کہہ رہا ہے کہ ملزمان کو "باعزت بری " نہ کیا جائے اس کا تو کام ہی یہ ہے کہ اپنے ملزم کو بے گناہ ثابت کرکے ان کو باعزت بری کروادے
مختصر یہ کہ ایک طویل بحث کے بعد طے پایا کہ ٹرائل چلے گا- اور پھرمزید تین مہنیے ٹرائل چلا گواہان مختلف پیشیوں پر حاضر ہوئے اور ان کی گواہی ریکارڈ ہوئی آج تین ماہ بعد اسی کورٹ میں اس کیس کی فائل ملاحظہ کی تو عجیب سے انکشافات ہوئے


2011

میں ایک جھوٹا مقدمہ 4 شہریوں کے خلاف تھانہ لیاقت آباد کراچی ضلع وسطی (سینٹرل) میں درج ہوا جان سے ماردینے کی
 دھمکی کا پولیس نے تفتیش کرنے کے بعد رپورٹ داخل کی کہ مقدمہ جھوٹا ہے گواہان کے بیان میں مکمل تضاد ہے یہ پولیس رپورٹ اس مجسٹریٹ صاحبہ کے سامنے پیش ہوئی جس کا عدلیہ میں بحثیت مجسٹریٹ 15 سال کا تجربہ ہے کراچی کا ڈسٹرکٹ سینٹرل مجسٹریٹ صاحبہ نے کہا چالان داخل کریں تفتیشی افسر نے پولیس رپورٹ کو چالان میں اس طرح تبدیل کیا " پولیس کی تفتیش کے مطابق مقدمہ تو جھوٹا ہے لیکن مجسٹریٹ صاحبہ کے حکم پر اس پولیس رپورٹ کوزبردستی چالان میں تبدیل کیا جارہا ہے" 2011 میں ہی اس پر انتظامی حکم جاری ہوا ملزمان نے ضمانت قبل از گرفتاری سیشن جج سے کروائی اور پولیس رپورٹ ہی کی روشنی میں ضمانت قبل از گرفتاری منظور کی گئی
اس دوران مقدمہ 2013 میں دوسری عدالت میں منتقل ہوا- ملزمان کو عدالت میں دھکے کھاتے ہوئے دوسال گزرچکے تھے مجسٹریٹ نے زور دیا کہ کیس چلاؤ کیس کیا چلنا تھا مقدمے میں کچھ ہوتا تو چلتا اس دوران دوملزمان کے وکیل نے بریت کی درخواست دی تو دیگر دوملزمان کے وکیل نے بریت کی درخواست سے اظہار لاتعلقی کردیا اب ایک نئی صورتحال نے جنم لیا عدالت کے سامنے وکیل صفائی کہہ رہا ہے کہ ملزمان کو باعزت بری مت کریں ٹرائل کریں- گواہان کے بیان ہوئے تو سب کے بیانات میں مکمل تضاد تھا مکمل تضاد جس کی تفصیلات کیلئے ایک الگ صفحہ درکار ہے جس کے بعد تمام زمہ داران کیلئے شاید جوتوں کی سزا بھی کم ہو
وکیل صفائی نے جب دوبارہ دیکھا کہ ملزمان باعزت بری ہونے والے ہیں تو کورٹ پر اس بنیاد پر عدم اطمینان کا اظہار کردیا کہ ایک گواہ مواد ہتھیلی پر لکھ کر لایا تھا اورکورٹ میں شہادت ریکارڈ کروانے کے دوران بار بار ہتھیلی سے پڑھ کر گواہی ریکارڈ کروا رہا تھا لیکن عدالت نے اس کو ایسا کرنے سے نہیں روکا اس لیئے مقدمہ دوسری عدالت میں منتقل کیا جائے تحریری درخواست کورٹ میں پیش کی گئی جس پر دیگر دوملزمان کے وکیل نے لکھ کر دیا کہ ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا
ملزمان نے بھی کہا کہ ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا جس کے بعد عدالت نے ملزمان کو باعزت بری کردیا بزریعہ ایک تفصیلی ججمنٹ لیکن ایک اہم راز جو سامنے آیا وہ یہ تھا کہ دوملزمان کا وکیل جو بریت کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کررہا تھا وہ 6000 ہزار روپیہ ماہانہ ایک ملزم سے فیس وصول کررہا تھا اور جب اس وکیل صاحب نے کورٹ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا تو اس دوران یہ بات سامنے آئی اور عدم اعتماد بھی کس بات پر کہ کورٹ ملزمان کو باعزت بری کرکے کیس ختم کرنا چاہتی ہے
اس پورے واقعے میں عبرت کے بے شمار پہلو ہیں پہلی مجرمانہ غلطی تو15 سالہ تجربہ کار مجسٹریٹ سے ہوئی جس نے شواہد نہ ہونے کے باوجود پولیس کی اس رپورٹ کے باوجود کہ مقدمہ جھوٹا ہے زبردستی تفتیشی افسر کو چالان پیش کرنے کا حکم دیا کوئی ادارہ ہے جو اس مجسٹریٹ کے خلاف ایکشن لے؟ سیشن جج نے بھی عبوری ضمانت کے دوران مجسٹریٹ کے خلاف کاروائی نہ کی اور صرف ملزمان کی ضمانت منظور کرنے پر ہی اکتفا کیا کیوں؟ کیا وہ عقل نہیں رکھتا تھا کیا وہ چارج شیٹ پڑھنا جانتا؟ پاکستان میں کوئی ادارہ ہے جو اس سیشن جج سے پوچھے؟ کریمنل جسٹس سسٹم تو ایک سوشیالوجی ہے اور جج کسی شہری کو ریلیف دینے کیلئے ضابطوں کا محتاج نہیں یہی وجہ ہے کہ اگر کسی قیدی نے ماضی میں جیل سے سگریٹ کی ڈبیا پر بھی لکھ کر عدلیہ سے فریاد کی تو عدلیہ نے اس کو سگریٹ کی ڈبیا پر بھی لکھی تحریر کو پٹیشن میں تبدیل کرکے اس کی مدد کی
 دو ملزمان کے وکیل نے بریت کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کیں کیا کوئی ادارہ ہے جو اس پر ایکشن لے؟
یہ سب کیا ہے کیا پاکستان کے شہر کراچی کےوہ چار معصوم اور بے گناہ شہری جن کو پہلے عدلیہ اور بعد میں اپنے ہی وکلاء کی وجہ سے پورے دوسال زہنی ازیت سے گزرنا پڑا اس کا کوئی علاج کسی کے پاس ہے  دوران ٹرائل ایک شہری کس ازیت سے گزرتا ہے اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کسی بھی شہری کی زندگی میں پیش آنے والا صرف ایک ہی مقدمہ اس کو زہنی، مالی اور جسمانی لحاظ سے توڑ پھوڑ کررکھ دیتا ہے اور اس زہنی ازیت کا ازالہ عمر بھر نہیں ہوپاتا  رزق اور روزی دینے والی زات اللہ تبارک تعالی کی ہے اللہ سے دعا ہے کہ وہ سب کو باعزت رزق عطا فرمائے
مجموعی طور پر میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ماتحت عدلیہ ایک ٹارچر سیل بن چکی ہے ایک ایسا ٹارچر سیل جہاں پاکستان کے شہریوں کو ہر ممکن طریقے سے زہنی طورپر ٹارچر کیا جاتا ہے ماتحت عدلیہ کو زہنی ازیت گاہ بنانے کی زمہ داری سپریم کورٹ، ہایئکورٹ، پاکستان بار کونسل، صوبائی بار کونسلز اور ڈسٹرکٹ بارز پر بھی عائد ہوتی ہے یہ تمام ادارے زمہ دار ہیں کسی نے بھی اپنی زمہ داری پوری نہیں کی پاکستان کے معصوم شہری تو اس آزاد عدلیہ کو تلاش کرکرکے تھک گئے ہیں جس کا شور پوری دنیا میں مچایا جارہا ہے  پیشہ وکالت کہاں کھڑا ہے وکلاء کہاں کھڑے ہیں چاہے چند ہی ہیں لیکن وہ چند وکلاء ایسا کیوں کررہے ہیں یہ سب باتیں سوچنے کی ہیں- ہمیں آپ کو سب کو اس پر سوچنا ہوگا ایسے واقعات کو چھپانے سے پردہ ڈالنے سے صرف ہم اپنے اس مرض کو چھپانے کی کوشش کررہے ہیں جو دن بدن بڑھتا ہی جارہا ہے اور شاید اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ اب اس کا علاج بھی ناممکن ہوتا جارہا ہے
اکثر لوگ کہتے ہیں کہ یہ بھی کوئی واقعہ ہے یہ کچھ بھی نہیں اس سے بڑے واقعات ہورہے ہیں ایسے تبصروں کو ہم حادثے سے بھی بڑا حادثہ سمجھتے ہیں
لیکن اس پورے حادثے میں امید کا ایک پہلو وہ مجسٹریٹ ہے جس نے شہریوں کے حقوق کی حفاظت کرتے ہوئے ان کی زہنی ازیت کا ازالہ کرتے ہوئے ان کو باعزت بری کردیا
اس طرح کی بے شمار مثالیں سامنے آرہی ہیں جس میں نوجوان مجسٹرٰیٹ شہریوں کو زہنی ازیت سے نجات دلانے میں اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کررہے ہیں
جدید کیس مینیجمنٹ کا نظام جو دنیا بھر میں رائج ہے اس  کے زریعے اس قسم کے مسائل حل کیئے جاسکتے ہیں
بدقسمتی سے جب پاکستان میں  ماضی میں اس نظام کو رائج کرنے کی کوشش کی گئی تھی تو ہماری اعلی عدلیہ نے اس کی بھرپور مخالفت کی تھی صر ف خیبر پختونخواہ اور بلوچستان نے کیس منیجمنٹ سسٹم کی حمایت کی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ آزاد عدلیہ کے بعض دعوے داروں نے تو اس کو عدلیہ کی خود ساختہ آزادی پر حملہ قرار دیا تھا


:تحریر صفی الدین اعوان

No comments: