پاکستان بار کونسل اور صوبائی بار کونسلز میں خواتین کی مخصوص نشستوں کے زریعے نمائیندگی کے حوالے سے کیئے گئے مطالبے کے بعد بعض حلقوں کی جانب سے چند آئینی نوعیت کے اعتراضات سامنے آئے جن کی وضاحت بہت ضروری ہے اس حوالے سے پہلے ہی وضاحت کی جاچکی ہے کہ ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ مخصوص نشستیں کچھ عرصے کیلئے مخصوص ہونی چایئں اور انتخابات براہ راست ہونا چاہیئے کسی بھی قسم کی بالواسطہ نمایئندگی کی مخالفت کی جائے گی اور قبول نہیں کیا جائے گا سوائے پاکستان بارکونسل جہاں ممبران کو بالواسطہ صوبائی بار کونسلز کے ممبران منتخب کرتے ہیں ایک اعتراض بار بار کیا جارہا ہے کہ خواتین کو پہلے ہی ڈسٹرکٹ کورٹس میں ہمدردی کا ووٹ ملتا ہے وہ مقابلہ کریں اور براہ راست الیکشن کے زریعے منتخب ہوکر آئیں جیسا کہ محترمہ عاصمہ جہانگیر اور محترمہ نور ناز آغا نے جدوجہد کے زریعے اپنا مقام بنایا جناب پہلی بات تو یہ ہے کہ محترمہ عاصمہ جہانگیر صاحبہ اور محترمہ نورناز آغا صاحبہ کو پاکستان بار کونسل میں نمائیندگی کیوں نہیں دی گئی؟ آخر ان کی جدوجہد میں کیا کمی تھی کہ آج پاکستان بار کونسل میں ان قابل قدر خواتین کو نمائیندگی نہیں دی گئی؟ کیا اندرون سندھ جنوبی پنجاب کے بہت سے شہروں میں خواتین کو وکالت کے یکساں مواقع میسر ہیں پسماندہ علاقوں میں تو خواتین وکلاء کو صرف اور صرف ووٹر بنایا جاتا ہے اور صرف الیکشن کے دن ووٹ کاسٹ کروانے کے بعد ان کا کردار ختم ہوجاتا ہے کیا خواتین وکلاء کو کام کرنے کا بہتر ماحول میسر ہے ڈسٹرکٹ کورٹس میں کرپشن کی وجہ سے لوکل لاء فرمز تو ویسے بھی مالی مشکلات کا شکار ہیں اور جونیئر وکلا کو کوئی معاوضہ دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اس وجہ سے ایک عام لڑکی کیلئے تو اس شعبے میں آنا ہی ناممکن ہوجاتا ہے اس لیئے ویمن پروٹیکشن نیٹ ورک ان مسائل کی نشاندہی کررہا ہے جن سے خواتین خصوصاً جونیئر وکلاء دوچار ہیں خواتین وکلاء ہرگز ہرگز براہراست الیکشن سے راہ فرار اختیار نہیں کررہی ہیں اور بہت سے لوگوں نے اس کو آگے آنے کیلئے شارٹ کٹ قرار دیا ہے ایسا ہرگز نہیں کیونکہ اسی سال کراچی بار کے الیکشن میں جونئیر خواتین کی نمایئندہ فائزہ علی منیجنگ کمیٹی کے الیکشن میں پہلی پوزیشن حاصل کرکے ثابت کردیا کہ ہم براہ راست الیکشن سے فرار نہیں چاہتے لیکن ایک ممبر منیجنگ کمیٹی وکلاء کی پالسی سازی کے معاملات پر کیا کردار ادا کرے گی ویسے بھی ڈسٹرکٹ بار پالیسی ساز ادارے نہیں ہیں اور پالیسی ساز اداروں میں نمایئندگی کا وہ حق ہم خواتین وکلاء مانگ رہی ہیں جو ہمیں حاصل نہیں ہے
آئین پاکستان کا آرٹیکل 34 ہماری بھرپور رہنمائی کرتے ہوئے کہتا ہے کہ خواتین کی قومی زندگی کے ہرشعبے میں شمولیت کی بھرپور توثیق کرتا ہے
فیصلے کے اختیارات ہمارے سینئر وکلاء کے پاس تھے جب پاکستان بار کونسل کے ممبران کو بالواسطہ انتخابات کے زریعے منتخب کیا گیا تو خواتین وکلاء کو منتخب نہ کرکے ان کو نمائیندگی نہ دے کر خواتین وکلاء کو اس اہم ترین قومی ادارے میں شمولیت سے روکا گیا ہے جوکہ خواتین وکلاء کے بنیادی حقوق سے انحراف کے مترادف ہے
No comments:
Post a Comment