Powered By Blogger

Thursday 17 October 2013

جو عدلیہ اتنی مجبور اور بے بس ہو کہ وہ ایک کورٹ محرر سے یونیفارم کی پابندی نہ کراسکے وہ شہریوں کے حقوق کا کیا تحفظ کرے گی


آج ہم نے عدلیہ سے منسلک  جس شخصیت کو انٹرویو کیلئے منتخب کیا ہے اگرچہ بظاہر وہ ایک چھوٹی شخصیت ہے لیکن درحقیقت وہ عدلیہ کی سب سے اہم ترین شخصیت ہے وہ ایک اہم ترین شخصیت اس وقت ہمارے ساتھ موجود ہیں اگرچہ وہ کسی تعارف کی محتاج نہیں لیکن انٹرویو شروع کرنے سے پہلے ہم چاہیں گے کہ وہ اپنا تعارف خود کروائیں
جناب زرہ نوازی ہے آپ کی اس خاکسار کو بہت سے لوگ  " کورٹ کی دائی" کے نام سے پکارتے ہیں کچھ لوگ مجھے کورٹ کا پٹواری کہتے ہیں جب کے سرکاری طورپر مجھے "کورٹ محرر" کہا جاتا ہے میں کورٹ کی دائی بھی ہوں پٹواری بھی ہوں اور کورٹ محرر بھی میرا سرکاری کام تھانے کی ڈاک کورٹ سے لیکر تھانے تک پہنچانا ہے اور تھانے سے ڈاک لیکر کورٹ تک پہنچانا ہے تھانے کے کیسز کی نگرانی کرنا ہے افسران تک عدالتی احکام پہنچانا ہے کورٹ کی جانب سے گواہ کو جب گواہی کیلئے طلب کیا جاتا ہے تو ہم ہی گواہ کے پاس کورٹ کے اور  احکامات لیکر جاتے ہیں کورٹ میں چلنے والے تھانے کے کیسز میری جایئداد بھی ہیں اور اثاثہ بھی اور میرا کاروبار بھی میں کورٹ میں جو بھی رپورٹ جمع کروادوں وہ حتمی تصور ہوتی ہے اور اسی رپورٹ ہی کی بنیاد پر کیس کا فیصلہ ہوتا ہے

سوال: کورٹ محرر صاحب آپ اپنے کاروبار اور اپنی شخصیت پر مزید کچھ روشنی ڈالیں؟

کورٹ محرر: جناب کیا روشنی ڈالوں میرے بغیر عدالتی کاروائی چل نہیں سکتی اگرچہ میں ایک چھوٹا موٹا پرزہ نظر آتا ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں پاکستانی عدلیہ کا سب سے اہم ترین مہرہ ہوں  مجسٹریٹوں کو نفع بخش تھانے میری مرضی سے ملتے ہیں سیشن جج میرے مریدوں میں شامل ہوتا ہے  عدالت میں میری مرضی کے بغیر کوئی کاروائی نہیں ہوسکتی اور بعض معاملات میں میری طاقت آئی جی سندھ سے بھی زیادہ ہے اگر ہم نہ ہوں تو کیس ڈسپوزل مشینیں خود ڈسپوزل ہوجائیں

سوال: حد ادب گستاخ کس قسم کی باتیں کررہے ہیں  آپ کا علاقہ مجسٹریٹ آپ کے پینل پر کس طرح کام کرسکتا ہے اور آپ کی مرضی سے تھانے کس طرح تقسیم ہوسکتے ہیں اور کیس ڈسپوزل مشین سے کیا مراد ہے؟ آپ جانتے ہیں کہ آپ کیا غلط قسم کی باتیں کررہے ہیں ڈھنگ کے کپڑے آپ پہن نہیں سکتے اور باتیں کررہے ہو بڑی بڑی کہاں آئی جی سندھ اور کہاں تم جیسے تیس مارخان

کورٹ محرر: اصل بات یہ ہے کہ لوگوں سے سچ برداشت نہیں ہوتا میں آپ کو اپنی طاقت بتاتا ہوں میں ایک پولیس کا سپاہی بھی ہوں اور میرے لیئے لازم قرار دیا گیا ہے کہ میں ہمیشہ عدالت میں یونیفارم میں پیش ہوا کروں گا- عدالت کے سامنے آئی جی سندھ سے لیکر ڈی جی رینجرز تک یونیفارم میں پیش ہوتے ہیں بڑے سے بڑا فوجی افسر خفیہ ایجنسیوں کے افسران تک عدالت میں یونیفارم کی پابندی کرتے ہیں جبکہ میں ایک عام سپاہی جس کو کورٹ محرر کا عہدہ دیا گیا ہے کس طریقے سے سیشن جج کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہوتا ہوں وہ بھی بغیر یونیفارم کے کبھی آپ نے مجھے یونیفارم میں دیکھا ہے  میں نے تو یونیفارم تک نہیں سلوایا اور کس علاقہ مجسٹریٹ کی بات کررہے ہیں میں جب سیشن جج کو خاطر میں نہیں لاتا تو یہ مجسٹریٹ میرے سامنے کیا بیچتے ہیں
آپ بات کررہے ہیں "کیس ڈسہوزل مشین" کی آپ کو نہیں پتا کہ کیس ڈسپوزل مشین کیا ہوتی ہے میں آپ کو بتاتا ہوں تفتیشی افسر جب تفتیش مکمل کرکے "ردی کاغذ" جو کوئی کباڑیا بھی خریدنے پر راضی نہ ہو عدالت میں چالان کی صورت میں جمع کروادیتا ہے تو  عدالت ان ردی پیپرز پر بغیر دیکھے بغیر پڑھے بغیر سمجھے انتظامی حکم جاری کردیتی ہے تو اس کے بعد میرااور عدالت کام شروع ہوجاتا ہے عدالتی پیش کار ملزم میرے ساتھ مل کر جعلی رپورٹیں لگواتے ہیں کہ گواہان دستیاب نہیں میں اپنے کارندوں کے ساتھ مل کر گواہان کو ایسا ہراساں کرتا ہوں کہ وہ خواب میں بھی کورٹ کا رخ نہیں کرتا میری جعلی رپورٹوں پر ملزمان ایسے باعزت بری نہیں ہوتے جناب اس کے پیچھے پورا گیم ہوتا ہے اور اس گیم کا کپتان میں ہوں میرے تعاون کے بغیر کوئی بھی ملزم باعزت بری ہو نہیں سکتا جب میری جعلی فرضی رپورٹوں پر ملزم باعزت بری ہوتے ہیں تو نہ صرف وہ ملزمان سب کی مٹھی گرم کرکے جاتے ہیں بلکہ کیس زندہ دفن کرنے کی خوشی میں جج کو "پوایئنٹس " بھی ملتے ہیں جتنا زیادہ ڈسپوزل اتنے ہی زیادہ پوایئنٹس زیادہ سے زیادہ پوایئٹ حاصل کرنے والے کو ہماری زبان میں کیس ڈسپوزل مشین کہاجاتا ہے اسے کہتے ہیں ڈبل مزا آپ میری طاقت کو کبھی نہ آزمانا میری اجازت کے بغیر جج ضمانت منظور نہیں کرسکتا مجھے کورٹ کا پٹواری ایسے نہیں کہتے میں پورے کیس کی جزیات اور کلیات سے واقف ہوتا ہوں جو وکیل زیادہ قانون جھاڑے میرے ساتھ تعاون نہ کرے ان کے ملزمان کو جب تک میں پھانسی کے پھندے تک نہ لے جاؤں مجھے اور میری پوری ٹیم کو چین نہیں آتا

سوال: ایک تو آپ کو گھٹیا اور بے ہودہ قسم کے الزام لگانے کی بری عادت ہے کل آپ سیشن جج کے سامنے جائیں گے بغیر یونیفارم کے مت جانا وہ بڑے ایماندار لوگ ہیں اصول پسند لوگ ہیں دیکھتا ہوں آپ کو کیسے جیل نہیں بھیجتے
 جب آئی جی سندھ یونیفارم کے بغیر عدالت میں پیش نہیں ہوتا تو تم اتنے طاقتور کب سے ہوگئے؟ اور آپ کی اجازت کے بغیر ضمانت کیسے نہیں ہوسکتی؟ اور آپ کی ٹیم سے کیا مراد ہے؟
جواب: میں ادنی سا کورٹ محرر اس چیلنج کو قبول کرتا ہوں جو عدلیہ گزشتہ 67 برسوں میں مجھ حقیر، فقیر بے توقیر کو یونیفارم نہیں پہنا سکی میں دیکھتا ہوں مجھے کیسے یونیفارم پہنائے گی اور جو جج وکیل کورٹ اسٹاف پورا دن مجھ سے دو نمبر کام کرواتے ہوں وہ کیسے میرے خلاف کاروائی کرسکتے ہیں لیکن میرا بھی ایک چیلنج ہے اگر کسی جج نے مجھے جیل بھیجا صرف اس وجہ سے کہ میں یونیفارم کے بغیر پیش ہوتا ہوں تو 7دن میں اس کا ٹرانسفر تھر کے علاقے مٹھی میں نہ کروایا تو میرا نام بدل دینا میں اکیلا نہیں ڈوبوں گا پورے سسٹم کو ساتھ لیکر ڈوبوں گا ہزاروں راز اس سینے میں دفن ہیں سب کے سب کھول دوں گا اگر کورٹ محرر کے ساتھ چھیڑا گیا تو پورا سسٹم بیٹھ جائے گا
جہاں تک ضمانت کا تعلق ہے تو نہ ہی میں تھانے سے پولیس فائل لیکر آؤں گا نہ ہی جج ضمانت دے گا صرف اسی گراؤنڈ پر ہی کیس لٹکا رہے گا
آپ نے پوچھا کہ میری ٹیم سے کیا مراد ہے یہ سوال رہنے دیں اب تو میری ٹیم پورا "گینگ بلکہ مافیا" بن چکی ہے

سوال: دوروپے کے کورٹ محرر حد ادب گستاخ اب تم اپنے قد سے بہت اونچی اونچی باتیں کررہے ہو ایسا نہ ہو کہ تمہاری بے لگام زبان اور بڑی بڑی باتیں چیف جسٹس سندھ ہایئکورٹ تک پہنچ جایئں اور تمہاری ساری اکڑخانیاں ایک منٹ میں نکل جائیں یاد رکھنا کہ غرور کا سر ہمیشہ نیچا ہوتا ہے حقیقت تو یہ کہ تم ایک نمبر کے جھوٹے انسان ہو تمہاری سب باتیں جھوٹ پر مبنی ہیں تم جیسا جھوٹا انسان کبھی زندگی میں نہیں دیکھا
کورٹ محرر: چیف جسٹس سندھ ہایئکورٹ کو میں اچھی طرح جانتا ہوں ان کا نام مشیر عالم ہے وہ پہلے کراچی کی ڈسٹرکٹ کورٹس میں پریکٹس کرتے تھے ان کو "سب" پتا ہے ان کو وہ سب باتیں پتہ ہیں جو ایک پریکٹسنگ ایڈووکیٹ کو پتا ہوتی ہیں جسٹس وہ بہت بعد میں بنے ہیں وہ آپ سے زیادہ علم رکھتے ہیں میں بڑی باتیں نہیں کرتا ہوں عاجز حقیر فقیر بے توقیر ہوں ایک حقیقت بات بتا رہا ہوں کہ  جو عدلیہ اتنی بے بس ہو کہ گزشتہ 67 سالوں میں ایک میرے جیسے ایک دوروپے کے کورٹ محرر کو یونیفارم تک نہ پہنا سکے وہ اور کیا تیر مارے گی

سوال: آپ کو سب سے زیادہ خوشی کب ہوتی ہے؟
مجھے سب سے زیادہ خوشی اس وقت ہوتی ہے جس دن وکلاء عدالتوں کا بائیکاٹ کردیتے ہیں وہ دن ہمارے لیئے عید کا دن ہوتا اس دن میدان خالی ہوتا ہے ہم خوب مال بناتے ہیں
عدالتی بائیکاٹ کے دوران بھی کام ہوتا ہے؟
کورٹ محرر: چھوڑیں جی لگتا ہے آپ کو کچھ بھی نہیں پتا اصل کام تو ہوتا ہی عدالتی ہڑتال کے دن ہے ہڑتال کے دن تو ہم مال بنانے میں اتنا مصروف ہوتے ہیں کہ سرکھجانے کی فرصت نہیں ملتی اور بائیکاٹ کے دوران تو ایسا ایسا کام ہوتا ہے کہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا
سوال: آپ نے اپنے پورے کئرئیر میں اپنے آپ کو کب بے بس محسوس کیا؟

کورٹ محرر: کیا یاد کروادیا یہ کہہ کر کورٹ محرر نے سسکیاں لے لے کر رونا شروع کردیا جسٹس صبیح الدین احمد کا دور جب وہ سندھ ہایئکورٹ کے چیف جسٹس تھے میری زندگی کا بدترین دور تھا میں نے اپنی پوری زندگی میں اپنے آپ کو اسقدر بے بس محسوس نہیں کیا جتنا اس دور میں محسوس کیا ہم جعلی رپورٹیں لگا لگا کر تھک جاتے تھے کہ گواہ دستیاب نہیں مکان چھوڑ کر چلا گیا لیکن عدالتیں کسی بھی صورت میں میں کیس ختم ہی نہیں کرتی تھیں ایک کیس میں پورے تین سال تک رپورٹ دیتا رہا کہ گواہ علاقہ چھوڑ گیا دستیاب نہیں لیکن جج کہتا تھا میں مجبور ہوں 249 اے کے تحت ملزم کو باعزت بری نہیں کرسکتا بالآخر تین سال بعد مجبوری کے عالم میں میں نے گواہان پیش کرہی دیئے لیکن ظالم جج نے ملزم کو ان کی گواہی پر سزا بھی لگا دی اتنا ظلم تھا اس دور میں جو گواہ تفتیش میں پیش ہوگیا اس کو ہرصورت کورٹ لیکر آؤ عدالتیں گواہان کو ہر صورت میں لانے کا حکم دیتی تھیں اور ہمیں حکم ملتے تھے کہ گواہ کو ہرصورت لیکر آؤ چاہے ہتھکڑی لگا کر لانا پڑے ایسا ظلم میں نے پاکستان کی تاریخ میں نہیں دیکھا میری رپورٹ اٹھا کر پھینک دی جاتی تھی مجھے جج صاف صاف کہتے تھے کہ تم نے یہ رپورٹ گھر بیٹھ کر بنائی ہے اور ملزم سے پیسے لیکر بنائی ہے  مجھے گالیاں دی جاتی تھیں مجھے جھوٹا کہاجاتا تھا
ایک جج نے میری رپورٹ پر 249 اے کے تحت ملزمان کو باعزت بری کیا تو مجسٹریٹ کی نوکری تیل ہوتے ہوتے رہ گئی  صبیح صاحب نے مجسٹریٹ کو طلب کرکے  کہا کہ  249 اے کے تحت رہا کرنے سے محسوس ہورہا ہے کہ آپ نے پولیس کی تفتیش کا مطالعہ کیئے بغیر ہی چالان پر انتظامی حکم کیا ہے اس کے بعد اس مجسٹریٹ نے قسم کھائی کہ وہ ہمیشہ "ججمنٹ" کرے گا باقی نوکری اس نے ججمنٹ پاس کرکے گزاری گواہان کو طلب کرتے میری رپورٹ کو ردی کی ٹوکری میں پھینکتے اور کہتے کہ ہر صورت میں گواہ پیدا کرکے لاؤ ان کے بیان قلمبند کرتے جس کے بعد گواہان کے بیانات کی روشنی میں مقدمے کا فیصلہ کرتے تھے  اور کبھی بھی ہمارے تفتیشی افسران کی تفتیش کا مطالعہ کیئے بغیر انتظامی حکم جاری نہیں کیا اور تفتیش
میں ایسے ایسے کیڑے نکالتے تھے کہ تفتیشی افسران نوکری سے تنگ ہوگئے تھے
ہماری پوری تنخوا خرچ ہوجاتی تھی ایسا مشکل وقت ایسے مشکل حالات خدا کبھی دشمن کو نہ دکھائے

آپ نے اپنی زندگی میں سب سے اچھا دور کب دیکھا؟

 کورٹ محرر:دوہزار سات میں جب وکلاء تحریک شروع ہوئی تھی اس دور میں ہڑتالوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا وہی میری زندگی کے عروج کا دور تھا اس کے بعد تو عروج ہی عروج ہے ایسی مارا ماری شروع ہوئی کہ "تو مار تے میں مار ، میں مار تے تو مار" روز، روز کی ہڑتالوں نے عدلیہ کی بنیادیں ہی ہلا کر رکھ دی ہیں پورا نظام ہی تباہ و برباد ہوچکا ڈسٹرکٹ کورٹس کے وکلاء گزشتہ چھ سال کے دوران ہڑتالیں کرکرکے معاشی طور پر اتنے تباہ و برباد ہوگئے کہ اب ان میں ہڑتال کی سکت ہی نہیں رہی اسی دوران عدلیہ بطور ادارہ تباہ ہوا اور ہماری سوئی ہوئی قسمت جاگ گئی وکلاء کو ہڑتالوں کا مشورہ دینے والے عظیم انسان کو ہمارے بیوی بچے جھولی پھیلا پھیلا کر دعا دیتے ہیں ہماری حکومت سے اپیل ہے کہ پاکستان میں عدالتی بائیکاٹ کے خالق کو ہمارے محسن کو فوری طور پر تلاش کرنے کا حکم دے  قومی تمغہ دے یعنی کوئی نشان امتیاز دے بدقسمتی سے ہم اپنے محسن کا نام تک نہیں جانتے جس نے ہمارے گھروں میں معاشی خوشحالی کی بنیاد رکھی ہم وکلاء کے اس بے مثال لیڈر کو اپنا قائد اپنا پیرومرشد تسلیم کرتے ہیں جس نے ہڑتالوں کے زریعے وکلاء کے معاشی قتل کی بنیاد رکھی
 آج وکلاء میں بھی بلاوجہ کے ایسے لوگ پیدا ہورہے ہیں کہ جو وکلاء کو ورغلا رہے ہیں کہ وہ کسی بھی معاملے پر پرامن احتجاج کیلئے عدالتی بائیکاٹ کے علاوہ کوئی اور پرامن طریقہ تلاش کریں یاللہ ایسے لوگوں کی سازشوں سے ہمیں محفوظ فرما اور ان کو نیست ونابود فرما
عدلیہ پر ہمارا احسان ہے
وکلاء تحریک کے دوران جب پورا نظام بند گلی میں کھڑا تھا اس دوران ہم کورٹ محرر ہی تھے جنہوں نے اپنے تجربے کی روشنی میں عدلیہ کو "بند گلیوں " سے نکلنے  کے ایسے ایسے راستے دکھائے جس کے زریعے عدلیہ اس دور میں بند گلی سے ایسا نکلی کہ لوگ سوچ بھی نہیں سکتے اس کے بعد ہمارا تجربہ ہے اور عدلیہ کی طاقت ہے اور کورٹ اسٹاف کی پبلک ڈیلنگ ہے ہم نے مل جل کر ایک ایسی مضبوط بااعتماد پایئدار اور نفع بخش پارٹنرشپ کی بنیاد رکھ دی ہے جس کو توڑنا وکلاء کیلئے اب ناممکن ہی ہوگا

کورٹ محرر کی مسلسل بکواس سن کر ہماری قوت برداشت دے گئی اور غصے سے کہا
کورٹ محرر بدمعاش تم عزت کے قابل ہی نہیں اپنی بکواس بند کرو اور دفع ہوجاؤ جھوٹے بدمعاش کہیں کے تم ایک نمبر کے جھوٹے انسان ہو تم نے اپنے قد سے بڑی جتنی بھی باتیں کی ہیں وہ سب جھوٹ ہیں  
کورٹ محرر یہ سن کر برا مانے بغیر چلا گیا
تحریر : صفی الدین اعوان

No comments: