ایک جج کے پاس
بے شمار صوابدیدی اختیارات ہوتے ہیں جن کا استعمال ہمیشہ ایک سوالیہ نشان رہا ہے
جدید کیس منیجمنٹ صوابدیدی اختیارات کے غلط استعمال کو روکتا ہے جدید کیس منیجمنٹ
کی بنیاد صدیوں پرانے اصولوں پر مبنی ہے کوئی نیا اصول شامل نہیں کیا گیا
دنیا میں کہیں
بھی کیس منیجمنٹ کی بنیاد پر عدلیہ کی آزادی خطرے میں نہیں پڑی کیس منیجمنٹ کے زریعے نہایت ہی آسانی سے ججز کے صوابدیدی اختیارات کے استعمال میں
شفافیت لائی جاسکتی ہے
پاکستان کے
عدالتی نظام نے آج سے چند سال پہلے جس
نظام کو سختی سے مسترد کیا تھا اس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے یہ تفصیل اس پورے
نظام کا خلاصہ ہے لیکن مکمل نظام بے تحاشاخوبیوں
کا حامل ہے
ہایئکورٹ کے
ایک جسٹس کو صرف انتظامی اختیارات دینے
تھے ممبر انسپکشن ٹیم (ایم آئی ٹی )کو انتظامی
اختیار کے حامل جسٹس کے ماتحت رہ کر کام کرنا تھا
سب آرڈینیٹ
کورٹس کے ججز جوبھی ججمنٹ دیں گے اس کی
ایک کاپی ایم آئی ٹی کو بھجوانی لازمی ہوگی اگر ججمنٹ میں کوئی ابہام ہوگا تو فوری
جواب دینا ہوگا جج کی اہلیت اور نااہلی کا اندازہ ججمنٹ سے ہوجاتا ہے اگر ججمنٹ
میں ابہام ہونگے اور کمزوریاں ہونگی تو
ان کمزوریوں کو دور کرنے کیلئے چھ ماہ کا ٹائم دیا جائے گا اور جوڈیشل اکیڈیمی میں
اس کو تربیت دی جائے گی ان کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کی جائےگی جن کی نشاندہی ایم آئی ٹی نے کی ہوگی چھ ماہ کے
بعد جج کو دوبارہ موقع دیا جائے گا کہ
وہ اپنی اہلیت کو ثابت کرے اگر مزید چھ
ماہ بھی وہ اپنی کمزوریاں دور نہیں کرپاتا تو اس کو گھر بھیج دیا جائے گا
اگر ججمنٹ مشکوک
ہوگا تو اس پر بھی بحث ہوگی جواب طلبی ہوگی اور اگر مطمئن نہ کرپایا تو یہی سمجھا
جائے گا کہ رشوت لی گئی
ہایئکورٹ میں
عدالتی فیصلے کی اپیل کی سماعت کے دوران اگر مس کنڈکٹ سامنے آئے گا تو جسٹس صاحبان اپنے
کمنٹس دیں گے ان کمنٹس کی بنیاد پر کاروائی ہوگی
جب ایم آئی ٹی
عدالتوں میں جاکر ریکارڈ جاکر چیک کرے گی تو دیکھا جائے گا کہ کیس کیوں تاخیر کا
شکار ہورہا ہے کہیں جان بوجھ کر تو نہیں کیا جارہا
ججز کے پروموشن
اسی ریکارڈ کی بنیاد پر ہونگے اور اسی
بنیاد پر ڈسمس کیا جائے گا اس طرح ڈسمس کیا جائے گا کہ وہ وکالت بھی نہیں کرپائے
گا
ضمانت کے
معاملات بھی اسی طریقے سے مشاہدے میں لائے جائیں گے
یہ آج سے نہیں
صدیوں پرانا طریقہ کار ہے سارا احتساب
انٹرنل ہے کہیں بھی بیرونی مداخلت
نہیں ہے کہیں بھی عدلیہ کی آزادی متاثر نہیں
ہورہی ہاں اپنے دوستوں بیٹوں ،بھانجوں ،بھتیجوں اوربار کے عہدیداران کو نوازنا
ممکن نہیں ہوگا انتظامی اختیارات رکھنے والا جسٹس کورٹ میں کیسز کی سماعت نہیں کرے گا نہ ہی وہ زیادہ
عرصہ انتظامی جج رہے گا لوگ بدلتے رہیں گے تاکہ انتظامی اختیارات کا حامل جج بھی رشوت نہ لے سکے اس لیئے ایک سال بعد نیا
جسٹس یہ عہدہ سنبھال لے گا ایم آئی ٹی ہر
جج کی رپورٹ جسٹس کو دینے کا پابند ہوگا جو تبدیل نہیں ہوگی ججز کے خلاف شکایت کا
فورم الگ ہوگا ان کے خلاف شکایت ثبوت کے
ساتھ درج ہوگی بغیر ثبوت کے شکایت درج نہیں ہوگی برطانیہ میں جج کے خلاف شکایت درج
ہونے سے پہلے تک پارلیمنٹ مداخلت نہیں
کرسکتی لیکن شکایت داخل ہونے کے بعد پارلیمنٹ میں بحث ہوسکتی ہے کیونکہ شکایت درج ہونے کا مقصد ہی یہ ہے کہ ثبوت موجود
تھے ثبوت نہ ہوں تو شکایت درج ہی نہیں ہوتی مزے کی بات دیکھیں کہ برطانیہ میں
ان اقدامات سے عدلیہ کی آزادی پر حرف نہیں
آتا
برٹش ہرصورت میں
سب آرڈینیٹ کورٹس کے معاملات صاف ستھرا رکھنے کی کوشش کرتے تھے کیونکہ سب آرڈینیٹ کورٹس سے ہی کریم ابھر کر سامنے آتی
ہے یہ عمل ایک سال میں نہیں ہوتا ایک زمانہ چاہیئے وقت کے ساتھ ساتھ اچھے لوگ عدلیہ کا حصہ بنتے
ہیں
جدید کیس
منیجمنٹ کی روشنی میں رشوت لینے کی کہاں گنجائش بنتی ہے بار کے صدر کی فیس ویلیو
کی گنجائش کہاں رہتی ہے کسی بھی جج کے خلاف شکایت نہیں بھی درج کی جائے تو
سسٹم خود احتساب کرتا ہے کسی بھی جج کے
خلاف شکایت درج کروانے کی ضرورت ختم ہوجاتی ہے
جب یہ پروپوزل
پیش کیا گیا تھا تو ماضی کے اس وقت کے ریٹائرڈجسٹس صاحبان کے
علاوہ سندھ اور پنجاب کے چیف جسٹس صاحبان نے اس کو عدلیہ کی آزادی پر حملہ قرار
دیا تھا وفاقی وزیرقانون کو ایجنٹ تک قرار
دے گیا خراج تحسین کے مستحق ہیں اس وقت کے
صوبہ بلوچستان کے چیف جسٹس ،کے پی کے کے چیف جسٹس جنہوں نے عدلیہ کو بار اور بنچ
کے چنگل سے بچانے کی ناکام کوشش کی تھی
نوجوان وکلاء
اور سب آرڈینیٹ کورٹس کے ایماندار ججز کو یاد رکھنا چاہیئے وہ لوگ جو بار کے الیکشن میں کروڑوں روپیہ لگا
دیتے ہیں اور بینچ جو جان بوجھ کر فرسودہ
عدالتی نظام کو تحفظ دے رہے ہیں کیونکہ اس
فرسودہ نظام کی بقاء میں ہی ان کی بقاء اور ان کے دوستوں ،بیٹوں،بھانجوں ،بھتیجوں
اور بار کے اہم عہدیداران کے مفاد ات صرف فرسودہ نظام سے ہی وابستہ ہے
بار اور بینچ
دونوں استحصالی طبقہ ہیں ان کو صرف اپنا مفاد عزیز ہے ایک عام وکیل ایک عام جج اور
پاکستان کے عام شہری کے حق کی انہیں کوئی پروا نہیں
No comments:
Post a Comment