Powered By Blogger

Thursday 24 October 2013

وہ شیشہ جو انصاف کی راہ میں اہم رکاوٹ ہے

لاء سوسائٹی پاکستان کے بلاگ کی سب سے بڑی  خوبی یہ ہےکہ یہ سب سے زیادہ کراچی میں پڑھا جاتا ہے ہمیں جو ردعمل ملتا ہے وہ بھی زیادہ تر کراچی سے ملتا ہے اس کے علاوہ اندرون سندھ سے بھی بہت بڑی تعداد نہ صرف بلاگ کو پسند کرتی ہے بلکہ بزریعہ ای میل ٹیلی فون اور ایس ایم ایس کے زریعے  ہمیں اپنے ردعمل سے آگاہ کرتے رہتے ہیں  ہمارا بلاگ امریکہ برطانیہ ،کینیڈا،فرانس اور متحدہ عرب امارات سمیت دنیا کے 25 سے زائد ممالک میں جہاں پاکستانی آباد ہیں  وہاں  اس کا مطالعہ کیا جاتا ہے
پنجاب جہاں بار بہت زیادہ مضبوط ہے وہاں ہمارا بلاگ حیرت سے پڑھا جاتا ہے  پنجاب کے دوستوں کی رائے ہے کہ  مضبوط بار ہی انصاف کی فراہمی کو یقینی بناتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ جسٹس شریف کے چیمبر کے شیشے ٹوٹنے کی آوازیں جب تک ہایئکورٹ کی راہداریوں میں گونجتی رہیں گی عدلیہ من مانی سے بعض رہے گی  اور عدلیہ کو من مانی سے روکنے کیلئے کوئی پٹیشن  نہیں آتی  من مانی طاقت سے روکی جاتی ہے  جس بار کا صدر توہین عدالت کے کیس میں سرجھکا کر پیش ہوتا ہو وہ بار عدلیہ کو من مانی سے کیسے روکے گی یہ کل ہی کی تو بات ہے
  مضبوط بار کے صدر نے کہا تھا کہ "ہم سپریم کورٹ کو آگ لگادیں گے" یہ کہہ کر انہوں نے  اس وقت کی عدلیہ کومن مانی کرنے سے روک دیا تھا
دنیا بھر میں جہاں جہاں گروہ ،تنظیمیں اور ادارے عدالتی نظام کی مضبوطی  کے لیئے کام کررہے ہیں انہوں نے ہماری جدوجہد کو خراج تحسین پیش کیاہے وہ ہمارے رابطے میں ہیں
پہلا مرحلہ مکمل ہوا۔ عدلیہ سے متعلق مکالمے کی بنیاد رکھ دی گئی
اسٹیک ہولڈرز نے خاموش ردعمل ظاہر کیا   وہ انتظار کرتے رہے کہ ہم کوئی پٹیشن لائیں اور اس کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی جائیں سوال تیار کرلیئے گئے ۔ لیکن کیا ہم کمزور ہیں 
پھر کہا گیا کہ نوٹس نہ لیں صرف نوٹ کریں  اس لیئے نوٹس نہیں لیا گیا بلکہ نوٹ کرلیا گیا  پھر کہا گیا انتظار کرلیں بڑی غلطی کرنے دیں بڑی غلطی کی سزا بھی بڑی ہوگی   لیکن معاف نہیں کرنا
شاید یہ وہ معافی دینا چاہتے ہیں جو ہم نے مانگی ہی نہیں نہ ہی ہم مانگے گے
پھر کہا گیا کہ ایم آئی ٹی سے رابطہ کریں ہم نے رابطہ کیا لیکن کہا گیا کہ  ملنے کے لیئےانتظار کرنا ہوگا ہم نے کہا کہ رابطہ کریں گے لیکن ملنے کیلئے انتظار کرنا قبول نہیں اور انتظار بھی کریں تو کیوں کریں ملنا ہے تو ملیں  اور انتظار بھی کس بات کا کہا گیا کہ یہ رویہ ٹھیک نہیں  ہم یہ کہہ کر چلے آئے کہ   جو دل چاہے کریں

ایک بار کے اہم عہدیدار نے کہا کہ ساری باتیں ٹھیک ہیں لیکن بعض سچ صرف  بولنے کی حدتک ہی ہوتے ہیں وہ صرف بار روم میں سرگوشیوں کی حد تک ٹھیک ہوتے ہیں
دوسرا مرحلہ ہے اس سارے سچ پر بحث مباحثہ اور ایک  تحریری  دستاویز کے زریعے رپورٹ کرنا 
 لیکن انداز ہر گز دفاعی نہیں ہوگا وہ سرد جنگ چاہتے ہیں وہ تھکانا چاہتے ہیں وہ موقع کی تلاش میں ہیں وہ بڑی غلطی کی انتظار میں ہیں
یہ کمزورلوگ ہیں   وہ  کمزور لوگ جوسزا دینا تو چاہتے ہیں لیکن  دے نہیں سکتے
دباؤ بڑھ رہا ہے  سوشل میڈیا کے رنگ ہی نرالے ہیں طاقتور لوگوں کو اتنا کمزور کبھی کسی نے نہیں دیکھا لیکن من مانی کررہے ہیں وہ اصولوں سے ہٹ چکے ہیں وہ اصول توڑ چکے ہیں وہ نواز چکے ہیں وہ نوازنا چاہتے ہیں وہ اقرباء پروری کے  راستے پر اسقدر آگے جاچکے ہیں کہ جہاں واپسی ممکن ہی نہیں۔۔۔۔۔۔۔ ان چیزوں نے ہی ان کو کمزور کیا ہے
ہرروز ہمارے سوشل میڈیا نیٹ ورک  سے  براہ راست منسلک 12000 بارہ ہزار افراد  اپنی بے رحم رائے کے زریعے رائے عامہ پر اثرانداز ہورہے ہیں    سوشل میڈیا کے گروپس ہرروز مل رہے ہیں وہ ہرروز کچھ نیا شیئر کرتے ہیں سوشل میڈیا کی ایک خامی کہ قیادت کسی کے پاس نہیں ہوتی منزل واضح نہیں ہوتی اس پر بات ہوتی ہے تبدیلی کے عمل پر یقین رکھنے والے منظم ہورہے ہیں
منزل بھی  واضح ہے سوچ بھی
جذبات میں گرمی بڑھ رہی ہے دور کہیں شیشہ ٹوٹنے کی آواز راہداریوں میں گونج رہی ہے۔۔۔ وہ شیشہ جو انصاف کی راہ میں اہم رکاوٹ ہے
 لیکن ابھی نہیں
وہ دیکھو  سوموٹو وہ" بیپر" چل رہے ہیں وہ سرخ سرخ بریکنگ نیوز کی آوازیں آرہی ہیں
 وہ ڈھونڈو کہاں ہے  کہاں ہے کہاں ہے
ہاں مل گئی آزاد عدلیہ 
وہ میڈیا کے کیمروں میں بند 
وہ بنچ نمبر ون
دیکھو خیال رکھنا کہیں باہر نہ چلی جائے عدلیہ میری پیاری آزاد عدلیہ
دیکھو کہیں سیشن کی عدالت میں نہ چلی جائے آزاد عدلیہ
 مجسٹریٹ کی عدالت میں نہ چلی جائے وہ آزاد عدلیہ
 کیمرے سے نکل نہ جائے اور اس کو بنچ نمبر ون میں  قید کرکے رکھنا ہے
حالات خراب ہیں خیال رکھنا  کہیں   آزاد ہو کر چلی نہ جائے
بھولی بھالی ہے نہ بہت آزاد عدلیہ


No comments: