Powered By Blogger

Tuesday 22 October 2013

عدالتوں سے ضمانت پر رہا ہو کر اشتہاری ہونے والے 33000 تینتیس ہزار افراد کراچی کے امن کیلئے خطرہ بن گئے

20 ستمبر 2013 کو پاکستان کے سادہ دل چیف جسٹس محترم افتخار محمد چوہدری نے پراسیکیوٹر جنرل سندھ کی اشتہاری ملزمان کے حوالے سے پیش کی گئی رپورٹ پر انتہائی سادگی اور حیرت سے پوچھا کہ کراچی شہر میں 33000 ہزار اشتہاری ملزمان اور 1500 دہشت گردوں کی موجودگی میں امن کیسے قائم ہوسکتا ہے
چیف جسٹس صاحب آپ کے خلوص سے انکار ممکن نہیں لیکن ان 33000 ہزار ملزمان میں این آر او کے علاوہ اکثریت ان ملزمان کی ہے جنہیں آپ کی عدالتوں نے جوڈیشل پالیسی کے نام پر فراڈ اسکیمیں چلا کر رہا کیا ہے اس حوالے سے عدلیہ کے اندر انتہائی اعلی سطح  تک کے لوگ ملوث ہیں جو جعلی دستاویزات کے زریعے ملزمان کو ضمانت پر رہا کرواتے ہیں بعد ازاں ملزم عدالتوں سے مفرور ہوجاتے ہیں بعض واقعات میں رشوت وصول کرکے شخصی ضمانت پر بھی انتہائی سنگین نوعیت کے جرائم میں ملوث ملزمان کو براہ راست جیل سےرہا/ فرار کروایا گیا ہے  اور یہ کاروبار عرصہ دراز سے جاری ہے بعد ازاں ایک فرضی کاروائی کے زریعے "ضامن" کے خلاف کاغزی کاروائی کرکے ملزم کو اشتہاری کرکے کیس داخل دفتر کردیا جاتا ہے جہاں وہ ریکارڈ روم کی دیمک کی غذا بن جاتا ہے اس سارے کاروبار کی زمہ داری بالواسطہ طور پر سندھ ہایئکورٹ پر عائد ہوتی ہے کیونکہ سندھ ہایئکورٹ کا شفافیت کا نظام انتہائی کمزور اور کرپشن کو مکمل سپورٹ کرتا ہے

اگر ایک عام وکیل کسی ملزم کی ضمانت پر رہائی کیلئے حلف نامہ جمع کرواتا ہے تو اس کی بھرپور تصدیق کروائی جاتی ہے متعلقہ اداروں سے دستاویزات تصدیق کروائی جاتی ہے لیکن جب دستاویزات تصدیق کیلئے بھیجی جاتی ہیں تو سندھ ہایئکورٹ کی جانب سے ڈڈسٹرکٹ کورٹس میں اس لیٹر کا ریکارڈ جو متعلقہ ادارے کو بھیجا جاتا ہے کا ریکارڈ رکھنے کو کوئی انتظام نہیں کیا جاتا ہے نہ ہی ایسا کوئی رجسٹر کورٹ میں دستیاب ہوتا ہے اور جب وہ دستاویزات متعلقہ ادارے سے تصدیق ہو کر آجاتی ہیں تواس کا ریکارڈ رکھنے کا بھی کوئی انتظام نہیں ہے کہ ادارے سے تصدیقی لیٹر لے کر کون آیا ہے (یہی دو خامیاں جعلی دستاویزات کے کاروبار کیلئے ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتی ہیں)

نہ ہی سندھ ہایئکورٹ نے ایسا کوئی انتظام کیا ہے جس کے زریعے کورٹ میں ضمانت کے طور پر جمع کاغزات کا ریکارڈ کورٹ کی سطح پر ہو نہ ہی سندھ ہایئکورٹ ایسا کوئی انتظام کرے گی کیونکہ جعلی دستاویزات سے منسلک مافیا روزانہ لاکھوں کروڑوں کا کاروبار کرتا ہے کورٹ لاعلم ہوتی ہے کہ ناظر کے پاس کتنی مالیت کے اثاثے کورٹ کی جانب سے کروائے گئے ہیں بنیادی طور پر اس کاروبار سے منسلک عدلیہ کی زلت کے بے شمار پہلو ہیں ویسے بھی سندھ ہایئکورٹ کو ڈسٹرکٹ کورٹس میں کرپشن کے خاتمے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے بلکہ سندھ ہایئکورٹ کو عملی طور پر ماتحت عدلیہ کے کسی بھی مسئلے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے

عدالت کے پاس مکمل ریکارڈ رجسٹر میں موجود ہونا چاہیئے کہ کتنے مقدمات میں دستاویزات جمع کرائی گئی ہیں کب اور کس طرح ان دستاویزات کی تصدیق کروائی گئی اور متعلقہ ادارے کے کس افسر نے تصدیق کی اور سرکاری طور پر کس زریعے سے وہ کاغزات تصدیق کے بعد عدالت میں پیش کیئے گئے ہیں
لیکن اگر "مخصوص" لوگ دستاویزات جمع کروائیں تو یہ کام منٹوں میں ہوتا ہے کورٹ کی سختی فوری طور پر نرمی میں تبدیل ہوجاتی ہے
محترم چیف جسٹس صاحب آپ کی حیرت بلاوجہ نہ تھی شروع شروع میں ہمیں بھی حیرت ہوتی تھی اب بالکل بھی نہیں ہوتی شاید چیف صاحب سمجھے کہ پاکستان اسٹیل مل، پی آئی آئے،ریلوے،تعلیم یا پولیس کا کوئی افسر اس بدکاری میں ملوث ہے جن کی کرپشن کی وجہ سے اتنی بڑی تعداد میں ملزمان اشتہاری ہو کر گھوم رہے ہیں اسی لیئے تو آپ کو فوری طور سخت غصہ آیا لیکن چیف صاحب میں آپ کو حلفیہ کہتا ہوں کہ کراچی کی عدالتوں سے جو اتنی بڑی تعداد میں ملزمان ضمانت کے نام پر جعلی دستاویزات کے زریعے فرار کروائے گئے ہیں اس ساری بدعنوانی میں پاکستان ریلوے،پی آئی اے،پاکستان اسٹیل مل یا ان جیسے بدنام زمانہ اور رسوائے زمانہ اداروں کے افسران ملوث نہیں ہیں یہ سب آپ کے اپنے ادارے کی غفلت کی وجہ سے ہوا ہے
مافیا کی طاقت کا اندازا اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب صوبہ سندھ کے سابق چیف جسٹس نے جعلی ضمانت کے کاروبار کے خاتمے کیلئے نادرا کی زیرنگرانی "ویریفیکیشن سینٹر" قائم کیا گیا تو مافیا نے اس کی بھرپور مخالفت کی سابق چیف جسٹس مجموعی طور بدعنوان عناصر کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئے لیکن سندھ ہایئکورٹ اور ملیر میں جعلی دستاویزات کا کاروبار کرنے والوں کے تابوت میں اسٹیل کی کیل ٹھوکنے میں کامیاب رہے لیکن کراچی کے چار ڈسٹرکٹ کورٹس (سٹی کورٹ) جوکہ پورے ایشیاء میں جعلی دستاویزات کی  کی سب بڑی منڈی ہے میں یہ نظام قائم کرنے میں ناکام رہے یہاں ایسا نظام قائم کرنا ناممکن ہے کیوں کہ اس سے بہت سے بااثر لوگوں کے مفادات ہیں کراچی کے ڈسٹرکٹ ملیر میں صرف سات دن میں "نادراکا ویریفیکیشن سینٹر" قائم کرنا اور سٹی کورٹ کے چاروں ڈسٹرکٹس میں مافیا کی خواہش پر پروگرام مؤخر کرنا کسی سانحے سے کم نہیں کیونکہ عدلیہ ہی سے منسلک لوگوں کے مالی مفادات اس سے منسلک ہے
بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم صرف الزامات ہی لگاتے ہیں ایسا ہرگز نہیں لیکن چیف صاحب کی دلچسپی کیلئے بتادیتے کہ کراچی کی ایک عدالت 2 نمبر ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ ویسٹ آج سے ایک سال پہلے جعلی دستاویزات جمع کروا کر ملزمان کی رہائی کا سب بڑا مرکز تھی اس کے علاوہ ہرمال بکتا تھا ہر قسم کی کرپشن بھادری سے ہوتی تھی چیف جسٹس پاکستان آپ کے دائیں بائیں بیٹھنے والے اس سارے معاملے میں براہ راست ملوث ہیں کیا چیف صاحب اپنی (" منجی") چارپائی کے نیچے ڈانگ پھیرنا پسند کریں گے
اس عدالت کے موجودہ جج  کا اس کاروبار سے کوئی تعلق نہیں لیکن ان کی پوسٹینگ سے پہلے کے سارے عدالتی ریکارڈ کا فرانزک ٹیسٹ کروائیں تمام اشتہاری ملزمان کی دستاویزات جو بطور ضمانت جمع کروائی گئی ہیں کا فرانزک ٹیسٹ کروائیں جن ملزمان کے کیسز ختم کیئے گئے ہیں ان کو ختم کروانے کیلئے جن جعلی رپورٹس کا سہارا لیا گیا ان کا بھی فرانزک ٹیسٹ کروائیں قتل اور ڈکیتی کے کیسز میں جن ملزمان کو ضمانت دی گئی کیا وہ ضمانت کے مستحق بھی تھے؟  لیکن یہ ساراکام سپریم کورٹ، پنجاب ہایئکورٹ یا ایف آئی اے کی زیر نگرانی کروائیں مافیا اتنا طاقتور ہے کہ ان کو بے نقاب کرنا سندھ ہایئکورٹ کیلئے ممکن نہیں ویسے بھی اس عدالت میں فوجداری مقدمات کے عدالتی ریکارڈ کے نام پر اتنا ردی پیپر جمع ہے کہ حقائق کی تہہ تک پہنچنا کافی مشکل ہوگا ویسے بھی زمہ داران اتنا پیسہ بنا چکے ہیں کہ اگر ان کے خلاف کاروائی سے ان کو نقصان نہیں ہوگا اور عدلیہ کی سادگی اور بندہ پروری کا یہ عالم ہے کہ ماضی میں بھی اگر کوئی جج کرپشن میں ملوث ہوتا تھا تو صرف استعفی لیکر فارغ کیا جاتا ہے قانونی کاروائی نہیں کی جاتی ایسے لوگ عدلیہ سے استعفی دینے کے بعد پیشہ وکالت میں آجاتے ہیں اور اس شعبے کی تباہی میں جو کسر باقی رہ گئی ہے اس کو پورا کرتے ہیں لیکن صوبہ پنجاب میں عدلیہ نے اپنے بدعنوان مجسٹریٹ کو ہتھکڑیاں لگوا کر اور جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل کر ایک نئی اور روشن مثال قائم کردی ہے سندھ ہایئکورٹ بھی تھوڑی سی ہمت کرلے   
چیف صاحب اگر مناسب سمجھیں تو اگر بااثر مافیا کا مقابلہ کرسکتے ہیں تو کراچی کے چاروں ڈسٹرکٹس میں دستاویزات کی تصدیق کیلئے "نادرا کے ویریفیکیشن سینٹرز" قائم کرنے کے خصوصی احکامات جاری کریں
چیف صاحب کراچی کی عدالتوں سے اتنی بڑی تعداد میں ملزمان کا مفرور ہوجانا ایک سنگین ترین مسئلہ ہے اور کراچی کے حالات کی خرابی میں ان اشتہاری ملزمان کا اہم ترین کردار ہے واقعی آپ کی عدلیہ کی نااہلی کی وجہ سے کراچی میں امن قائم نہیں ہوسکتا  جہاں آپ پولیس افسران اور دیگر اداروں کے افسران کا احتساب کرتے ہیں جو کہ ایک اچھی بات ہے وہیں آپ کا فرض ہے کہ جاتے جاتے اپنے گھر پر بھی تھوڑی سی توجہ دیکر جائیں یا آزاد عدلیہ کا زکر کرنا ہی چھوڑدیں









No comments: