Powered By Blogger

Saturday 26 October 2013

پولیس کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی کے خلاف کاروائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سیشن جج غلام مصطفی میمن صاحب کیلئے ایک اور آزمائیش

اینٹی کنٹرول وائیلنس سیل کراچی ڈسٹرکٹ ساؤتھ (اے وی سی سی) کراچی پولیس کی ایک ایسی خفیہ برانچ ہے جو ہرقسم کی جدید سہولیات سے آراستہ ہے اورملزمان کو پکڑنے کی حیرت انگیز صلاحیت رکھتی ہے عدلیہ کی آزادی  کے بعد ڈسٹرکٹ سطح پر عدلیہ کمزور ہوئی  ایسی کمزور عدلیہ جس کی تمنا پاکستانی پولیس کرتی ہے اس وقت بھی کراچی کے پانچ اضلاع میں سے صرف دواضلاع میں سندھ ہایئکورٹ نے سیشن ججز مقرر کئے ہیں  ایسٹ میں جو سیشن جج ہے اس کا ہونا نہ ہونا برابر جبکہ ڈسٹرکٹ ویسٹ اور سینٹرل میں عرصہ دراز سے سیشن جج موجود ہی نہیں عرصہ دراز کا لفظ اس لیئے استعمال ہوا کیونکہ  اس اہم ترین پوسٹ کو تو ایک لمحے کیلئے بھی خالی رکھنا شہریوں پر ظلم ہے سندھ ہایئکورٹ کے انہی اقدامات کا نتیجہ ہے کہ کراچی میں پولیس کے  خفیہ ادارے مزید طاقتور ہوگئے جس کے بعد تھانے کی سطح پر غیرقانونی  حراست کے واقعات میں اضافہ ہوا  
 اینٹی کنٹرول وائیلنس سیل کراچی ڈسٹرکٹ ساؤتھ (اے وی سی سی) نے تو سیکورٹی خدشات کی بنیاد پر سیکورٹی کا ایسا نظام تشکیل دیا جس کے بعد مجسٹریٹ یا کورٹ کا بیلف  اے وی سی سی میں داخل نہیں ہوسکتا  اور یوں یہ ادارہ بھی سی آئی اے کی طرز پر کراچی میں اغواء برائے تاوان کی سرگرمیوں میں ملوث ہوا ۔فخریہ طور پر اے وی سی سی کے افسران قانون سے بالادستی کے دعوے کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو کہ درست بھی ہیں
سیشن جج غلام مصطفی میمن کے حوالے سے بعض ریمارکس کو لوگوں نے ناپسند کیا کیونکہ شاہ رخ جتوئی کو سزائے موت کا حکم آپ نے سنایا اس حوالے سے لوگ  ان کی بہادری کے قائل ہیں لیکن ہمارا مؤقف یہ ہے کہ جس  معاملے  کا زکر تھا اس میں کورٹ کی جانب سے کمزوری کا مظاہرہ کیا گیا جو کہ مناسب نہ تھا لیکن آج اینٹی کنٹرول وائیلنس سیل کراچی ڈسٹرکٹ ساؤتھ (اے وی سی سی) میں ہونے والی غیرقانونی حراست کے معاملے پر پاکستان کی  محکمہ پولیس کی سب سے خطرناک خفیہ ایجنسی  کے خلاف  ایک ایسی جرات کا مظاہرہ کیا گیا  جس کی توقع عوام عدلیہ سے رکھتے ہیں یہی تو کراچی کے شہری چاہتے ہیں کہ عدلیہ کا کردار شہریوں کے لیئے ایک شفیق ماں کی طرح ہونا چاہیئے جو ہر لمحہ اپنے شہریوں کو تحفظ دے اور ان سے پیار کرے  ان کے حقوق کا خیال رکھے
آج سیشن جج کی ہدایت پر مجسٹریٹ زیشان منظور نے اینٹی کنٹرول وائیلنس سیل کراچی ڈسٹرکٹ ساؤتھ (اے وی سی سی) پر انتہائی کامیاب حکمت عملی  سے کامیاب چھاپہ مار کر  بیس دن سے قید ایک چودہ سالہ بچی سمیت پانچ افراد کو بازیاب کروالیا گیا بلاشبہ یہ ہماری ڈسٹرکٹ عدلیہ کی اہم کامیابی ہے کیونکہ کافی عرصے سے اے وی سی سی عدلیہ کیلئے "نو گوایریا" بنا ہواتھا  چھاپے کے دوران بھی اے وی سی سی نے ڈرامہ کرنے کی کوشش کی  کہ طالبان نے حملہ کردیا اور دروازے بند کردیئے لیکن مجسٹریٹ کی حکمت عملی کا آئی اور دروازے فوری طور پر کھلوانے میں کامیاب رہے اس طرح  اے وی سی سی جو باقاعدہ طور پر کراچی میں اغواء برائے تاوان کی سرگرمیوں میں ملوث ہے اور عدلیہ کی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر اپنے کاروبار کو تحفظ دے رہی تھی بے نقاب ہوگئی لیکن کیا  اس معاملے پر اے وی سی سی خاموش رہے گی اور اس ادارے کا ردعمل کیا ہوگا یہ ایک سوالیہ نشان ہے
 یہ کیس ہمارے دوست شعیب صفدر گھمن کے پاس ہے
 یہ کامیابی ڈسٹرکٹ جج ساؤتھ اور ساؤتھ کے مجسٹریٹ ذیشان منظور کے نام ہے جنہوں نے کامیاب حکمت عملی سے نوگو ایریا میں کاروائی کی لیکن کراچی کے شہری توقع رکھتے ہیں  پولیس کے خلاف اس کاروائی جو عدلیہ کی آزادی سے پہلے کراچی کے سیشن ججز پولیس کے خلاف کرتے تھے اگر غلام مصطفی میمن  پولیس کی اس خفیہ ایجنسی کے خلاف مزید ایکشن لینے میں کامیاب ہوتے ہیں مطلب ذمہ دارپولیس افسران کو سزا دے دیتے ہیں تو آپ کا نام عدالتی تاریخ کے سنہرے حروف میں درج کیا جائے گا لیکن  بلاشبہ اے وی سی سی کے ہیڈکوارٹر جیسے نو گو ایریا میں عدلیہ کا چھاپہ ایک اہم سنگ میل ہے کراچی کے شہری اور وکلاء جانتے ہیں کہ پولیس نے کراچی میں پرائیویٹ ازیت خانے  بنگلوں وغیرہ  میں بنا رکھے ہیں جہاں اہم ملزمان سے یہ کہہ کر رشوت لے کر چھوڑ دیا جاتا ہے کہ کل عدالت نے تو ویسے بھی چھوڑ دینا ہے

حالات کتنے ہی خراب کیوں نہ کتنا ہی قتل و غارت گری کیوں نہ ہورہا پولیس پابند ہے ان اصولوں کی جو آئین پاکستان اور پولیس ضابطوں میں درج ہیں جن کے مطابق کسی بھی شخص کی گرفتاری کے بعد وہ ساری کاغذی کاروائی ہر صورت میں مکمل کرنا ہوگی  جس کا طریقہ کار بیان کردیا گیا ہے غیر آئینی اقدامات اور خفیہ اداروں کی من مانیاں اور عدلیہ کی کمزوریاں وہ حالات پیدا کرتی ہیں جو آج بلوچستان میں ہم دیکھ رہے ہیں

No comments: