پاکستان میں معصوم شہریوں کو زہنی ازیت دینے کا
جو سب سے بڑا ٹارچر سیل ہے اس کا نام "ماتحت عدلیہ" ہے یعنی ڈسٹرکٹ
کورٹس جہاں پاکستان کے کروڑوں شہری اس ٹارچر سیل میں ازیت سے گزارے جاتے ہیں اس
ٹارچر سیل میں گزشتہ دنوں ایک ایسے واقعے کی مکمل تفصیلات ملی ہیں جو یہاں کے
معمولات میں شامل ہے
واقعہ یہ تھا کہ آج سے چند ماہ قبل ایک مجسٹریٹ
کی عدالت میں موجود تھا تو ایک دوسال پرانے 506-بی کے کیس میں 4 ملزمان پیش ہوئے
ایف آئی آر لیاقت آباد تھانے میں رجسٹر تھی ایک وکیل صاحب جج سے الجھ رہے تھے
معلوم ہوا کہ 2 ملزمان کا وکیل کہہ رہا ہے کہ ان کے ملزمان کو 249 –اے کے تحت
"باعزت" بری نہ کیا جائے میں نے ایسی کوئی درخواست کورٹ کو نہیں دی
دوسرے ملزمان کے وکیل نے دی ہے ان ملزمان کو کورٹ چاہے توباعزت بری کردے ہم تو کیس
چلانا چاہتے ہیں میرے ملزمان کو باعزت بری نہ کیا جائے مجسٹریٹ صاحب نے کہا کہ آپ
کورٹ کواس طرح کی کوئی ہدایت نہیں دے سکتے یہ کورٹ کا استحقاق ہے کہ وہ باعزت بری
کردے یا ٹرائل چلائے مجھے حیرت ہوئی کہ وکیل صفائی یہ کیسے کہہ رہا ہے کہ ملزمان
کو "باعزت بری " نہ کیا جائے اس کا تو کام ہی یہ ہے کہ اپنے ملزم کو بے
گناہ ثابت کرکے ان کو باعزت بری کروادے
مختصر یہ کہ ایک طویل بحث کے بعد طے پایا کہ
ٹرائل چلے گا- اور پھرمزید تین مہنیے ٹرائل چلا گواہان مختلف پیشیوں پر حاضر ہوئے
اور ان کی گواہی ریکارڈ ہوئی آج تین ماہ بعد اسی کورٹ میں اس کیس کی فائل ملاحظہ
کی تو عجیب سے انکشافات ہوئے
2011 میں ایک جھوٹا مقدمہ
4 شہریوں کے خلاف تھانہ لیاقت آباد میں درج ہوا جان سے ماردینے کی دھمکی کا پولیس
نے تفتیش کرنے کے بعد رپورٹ داخل کی کہ مقدمہ جھوٹا ہے گواہان کے بیان میں مکمل
تضاد ہے یہ پولیس رپورٹ اس مجسٹریٹ صاحبہ کے سامنے پیش ہوئی جس کا عدلیہ میں بحثیت
مجسٹریٹ 15 سال کا تجربہ ہے مجسٹریٹ صاحبہ کہا چالان داخل کریں تفتیشی افسر نے
پولیس رپورٹ کو چالان میں اس طرح تبدیل کیا " پولیس کی تفتیش کے مطابق مقدمہ
تو جھوٹا ہے لیکن مجسٹریٹ صاحبہ کے حکم پر اس پولیس رپورٹ کو چالان میں تبدیل کیا
جارہا ہے" 2011 میں ہی اس پر انتظامی حکم جاری ہوا ملزمان نے ضمانت قبل از
گرفتاری سیشن جج سے کروائی اور پولیس رپورٹ ہی کی روشنی میں ضمانت قبل از گرفتاری
منظور کی گئی
اس دوران مقدمہ 2013 میں دوسری عدالت میں منتقل
ہوا-مجسٹریٹ نے زور دیا کہ کیس چلاؤ کیس کیا چلنا تھا مقدمے میں کچھ ہوتا تو چلتا
اس دوران دوملزمان کے وکیل نے بریت کی درخواست دی تو دیگر دوملزمان کے وکیل نے
بریت کی درخواست سے اظہار لاتعلقی کردیا اب ایک نئی صورتحال نے جنم لیا عدالت کے
سامنے وکیل صفائی کہہ رہا ہے کہ ملزمان کو باعزت بری مت کریں ٹرائل کریں- گواہان
کے بیان ہوئے تو سب کے بیانات میں مکمل تضاد تھا مکمل تضاد جس کی تفصیلات کیلئے
ایک الگ صفحہ درکار ہے
وکیل صفائی نے جب دوبارہ دیکھا کہ ملزمان باعزت
بری ہونے والے ہیں تو کورٹ پر اس بنیاد پر عدم اطمینان کا اظہار کردیا کہ ایک گواہ
مواد ہتھیلی پر لکھ کر لایا تھا اورکورٹ میں شہادت ریکارڈ کروانے کے دوران بار بار
ہتھیلی سے پڑھ کر گواہی ریکارڈ کروا رہا تھا لیکن عدالت نے اس کو ایسا کرنے سے
نہیں روکا اس لیئے مقدمہ دوسری عدالت میں منتقل کیا جائے تحریری درخواست کورٹ میں
پیش کی گئی جس پر دیگر دوملزمان کے وکیل نے لکھ کر دیا کہ ایسا کوئی واقعہ پیش
نہیں آیا
ملزمان نے بھی کہا کہ ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں
آیا جس کے بعد عدالت نے ملزمان کو باعزت بری کردیا بزریعہ ایک تفصیلی ججمنٹ لیکن
ایک اہم راز جو سامنے آیا وہ یہ تھا کہ دوملزمان کا وکیل جو بریت کی راہ میں
رکاوٹیں کھڑی کررہا تھا وہ 6000 ہزار روپیہ ماہانہ ایک ملزم سے فیس وصول کررہا تھا
دراصل یہی 6000 روپیہ ماہانہ ملزمان کی بریت کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا تھا اور جب
اس وکیل صاحب نے کورٹ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا تو اس دوران یہ بات سامنے آئی
اور عدم اعتماد بھی کس بات پر کہ کورٹ ملزمان کو باعزت بری کرکے کیس ختم کرنا
چاہتی ہے
اس پورے واقعے میں عبرت کے بے شمار پہلو ہیں
پہلی مجرمانہ غلطی تو15 سالہ تجربہ کار مجسٹریٹ سے ہوئی جس نے شواہد نہ ہونے کے
باوجود پولیس کی اس رپورٹ کے باوجود کہ مقدمہ جھوٹا ہے زبردستی تفتیشی افسر کو
چالان پیش کرنے کا حکم دیا سیشن جج نے بھی عبوری ضمانت کے دوران مجسٹریٹ کے خلاف
کاروائی نہ کی اور صرف ملزمان کی ضمانت منظور کرنے پر ہی اکتفا کیا کریمنل جسٹس
سسٹم تو ایک سوشیالوجی ہے اور جج کسی شہری کو ریلیف دینے کیلئے ضابطوں کا محتاج
نہیں یہی وجہ ہے کہ اگر کسی قیدی نے ماضی میں جیل سے سگریٹ کی ڈبیا پر بھی لکھ کر
عدلیہ سے فریاد کی تو عدلیہ نے اس کو سگریٹ کی ڈبیا پر بھی لکھی تحریر کو پٹیشن
میں تبدیل کرکے اس کی مدد کی دو ملزمان کے وکیل نے بریت کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی
کیں
یہ سب کیا ہے کیا پاکستان کے وہ معصوم اور بے
گناہ شہری جن کو عدلیہ اور اپنے ہی وکلاء کی وجہ سے پورے دوسال زہنی ازیت سے گزرنا
پڑا اس کا کوئی علاج کسی کے پاس ہے رزق اور روزی دینے والی زات اللہ تبارک تعالی
کی ہے اللہ سے دعا ہے کہ وہ سب کو باعزت رزق عطا فرمائے
مجموعی طور پر میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ
ماتحت عدلیہ ایک ٹارچر سیل بن چکی ہے ایک ایسا ٹارچر سیل جہاں پاکستان کے شہریوں
کو ہر ممکن طریقے سے زہنی طورپر ٹارچر کیا جاتا ہے ماتحت عدلیہ کو زہنی ازیت گاہ
بنانے کی زمہ داری سپریم کورٹ، ہایئکورٹ، پاکستان بار کونسل، صوبائی بار کونسلز
اور ڈسٹرکٹ بارز پر بھی عائد ہوتی ہے یہ تمام ادارے زمہ دار ہیں کسی نے بھی اپنی
زمہ داری پوری نہیں کی پاکستان کے معصوم شہری تو اس آزاد عدلیہ کو تلاش کرکرکے تھک
گئے ہیں جس کا شور پوری دنیا میں مچایا جارہا ہے
پیشہ وکالت کہاں کھڑا ہے وکلاء کہاں کھڑے ہیں چاہے چند ہی ہیں لیکن وکلاء
ایسا کیوں کررہے ہیں یہ سب باتیں سوچنے کی ہیں ہمیں آپ کو سب کو اس پر سوچنا ہوگا
ایسے واقعات کو چھپانے سے پردہ ڈالنے سے صرف ہم اپنے اس مرض کو چھپانے کی کوشش
کررہے ہیں جو دن بدن بڑھتا ہی جارہا ہے اور شاید اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ اب اس کا
علاج بھی ناممکن ہوتا جارہا ہے
اکثر لوگ کہتے ہیں کہ یہ بھی کوئی واقعہ ہے یہ
کچھ بھی نہیں اس سے بڑے واقعات ہورہے ہیں
لیکن اس پورے حادثے
میں امید کا ایک پہلو وہ مجسٹریٹ ہے جس نے شہریوں کے حقوق کی حفاظت کرتے ہوئے ان کی
زہنی ازیت کا ازالہ کرتے ہوئے ان کو باعزت بری کردیا
امید کا دیا بجھا
نہیں
No comments:
Post a Comment